کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ نیب چیئرمین کی تقرری پر میں نےپی ٹی آئی سےرابطہ کیا،شاہ محمودقریشی عمران خان کی جگہ لیناچاہتےہیں پی ٹی آئی کا مسئلہ قائد حزب اختلاف کا نہیں بلکہ ان کی اندرونی جنگ ہے ،عمران خان کے ہوتے ہوئے شاہ محمودقریشی اپوزیشن لیڈرکیسےبن سکتےہیں،لیڈرآف اپوزیشن ہمیشہ پارٹی کا لیڈر بناہے،عمران خان کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے،یہ لیڈرآف اپوزیشن کانہیں پی ٹی آئی کاداخلی معاملہ ہے،وزیراعظم سےکہانیب چیئرمین کےلیےکسی کانام ہےتودیں،وزیراعظم سے ملاقات میں نیب چیئرمین کےنام پر بات ہوئی.
چیرمین نیب کے تقرر پر تحریک انصاف کے تین سنیئرارکان سے رابطہ کیا،سمجھ میں نہیں آتاانہیں کیوں اپوزیشن کوتقسیم کرنےکی ضرورت پڑی،ایم کیوایم نے بھی میراساتھ دیاتھا، میں متفقہ طور پر سوا چار سال اپوزیشن لیڈر بنا ،میرےپاس پارٹی کےعلاوہ دیگردوست بھی تھے،قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ مجھے سوا چار سال پہلے متفقہ طورپر قائد حزب اختلاف منتخب کیا گیا تھا، جماعت اسلامی، اے این پی، شیرپاؤ ، ق لیگ ،فاٹا اور چترال کے ایم این ایز سے میرا مسلسل رابطہ ہے، میں نے اکثریت کھودی تو باعزت طریقے سے قائد حزب اختلاف کا عہدہ چھوڑ دوں گا، سمجھ نہیں آتا پی ٹی آئی کو کیوں اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی ضرورت پڑی ہے، تحریک انصاف نے ہمیشہ اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نئے چیئرمین نیب کیلئے سب سے پہلے میں نے پی ٹی آئی سے رابطہ کیا، پی ٹی آئی کے شیریں مزاری، شفقت محمود اور عارف علوی سے اس بارے میں بات ہوئی، اسی طرح جماعت اسلامی، شیرپاؤ، ق لیگ اور ایم کیو ایم کو بھی نئے چیئرمین نیب کیلئے نام پر بیٹھ کر بات کرنے کیلئے کہا، اس کے دوسرے تیسرے دن وزیراعظم نے مجھ سے رابطہ کیا، وزیراعظم سے میٹنگ میں انہیں کہا کہ ابھی ہم ناموں کا فیصلہ کررہے ہیں آپ کے پاس نام ہیں تو مجھے دیدیں جس پر انہوں نے کہا کہ ابھی میرے پاس بھی نام نہیں ہے، نئے چیئرمین نیب کیلئے جماعت اسلامی نے مجھے ایک نام دیا ہے مگر باقی جماعتوں نے نہیں دیا۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا مسئلہ قائد حزب اختلاف کا نہیں بلکہ ان کی اندرونی جنگ ہے کہ کسی طرح عمران خان کو پیچھے کر کے کوئی دوسرا آگے آئے، یہ ان کا اندرونی نظام ہے کہ کسی طرح بھی شاہ محمود قریشی آگے آنا چاہتا ہے کہ اگر آئندہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو فلاں لیڈر نہیں تو چونکہ لیڈر آف دی اپوزیشن فلاں شخص ہے تو اسے موقع دیا جائے ۔
سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف میں عمران خان کی قیادت پر کوئی اختلاف نہیں البتہ گروپنگ ضرور ہے،میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیا اپوزیشن لیڈر کون ہوگا اس پر تحریک انصاف کے اندر ہی اپوزیشن نظر آرہی ہے، تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی کو اپوزیشن لیڈر بنانے پر اپوزیشن موجود ہے، پی ٹی آئی میں ایک دھڑا عمران خان کو اپوزیشن لیڈر بننے کیلئے کہہ رہا ہے ، موجودہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہہ رہے ہیں کہ شاہ محمود قریشی ، عمران خان کو پیچھے کر کے خود آگے آکر لیڈرا ٓف دی اپوزیشن بننا چاہتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ اسحاق ڈار کا کیس پیمانہ بن گیا ہے کہ اس کیس میں جو بھی ہوگا وہی شریف خاندان کے ساتھ ہوگا اور ابھی تک ایسا ہوا بھی ہے، احتساب عدالت تیزی سے کام کرتی نظر آرہی ہے، عدالت نے صرف تین سماعتوں میں ہی اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کردی ہے جو آگے جاکر نواز شریف پر عائد ہونی ہے، عدالت نے اسحاق ڈار کے وکیل کی مکمل ریفرنس فائل ہونے تک فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی، سماعت کے دوران اسحاق ڈار کے وکیل نے دلائل دیئے کہ ریفرنس کی کاپی ملنے کے سات دن کے اندر فرد جرم عائد نہیں ہوسکتی جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ قانون کے مطابق سات روز کے اندر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے ، عبوری ریفرنس میں بھی مکمل ثبوت فراہم کیے گئے ہیں جن کی بنیاد پر فردِ جرم عائد کی جاسکتی ہے،اگر عبوری ریفرنس پر اسحاق ڈار کے خلاف فردجرم عائد ہوسکتی ہے تو نواز شریف اور ان کے بچوں کے کیس میں کیا ہوگا وہ واضح نظر آرہا ہے ۔
شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ بدھ کو احتساب عدالت میں سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے میڈیا کوریج کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ میڈیا عدالت کا احترام کرتے ہوئے تمام حساس مقدمات کی بھرپور کوریج کرتا رہا ہے، اب ظاہر ہے جب کوریج نہیں ہوگی تو قیاس آرائیاں ہوں گی، افواہیں ہوں گی، اندازوں کی بنیاد پر رپورٹنگ ہوگی، اس معاملہ کو مزید سیاست زدہ کرنے کا موقع ملے گا۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن میں ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی مخالفت کردی ہے، وزیرداخلہ نے الیکشن کمیشن کو ملی مسلم لیگ کو سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر نہ کرنے کی سفارش وزارت خارجہ اور آئی بی کی جانب سے دی گئی رائے کے بعد دی ہے، وزارت خارجہ نے اپنے ایک خفیہ خط کے ذریعہ وزارت داخلہ کو آگاہ کیا ہے کہ ملی مسلم لیگ کی واچ لسٹ پر موجود تنظیم کے سربراہان کے پمفلٹس کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں پر عالمی سطح پر اعتراض اٹھایا گیا ہے، عالمی ردعمل کو سامنے رکھتے ہوئے وزارت خارجہ نے ملی مسلم لیگ کو رجسٹر نہ کرنے کی سفارش کی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ عالمی سطح پر پابندی کا سامنا کرنے والی تنظیموں کے حوالے سے پڑنے والے دباؤ کے بعد پاکستان پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ ماضی کی پالیسیوں سے پیچھا چھڑا کر وہ اپنے ہاؤس کو اِن آرڈر کرنے کیلئے سنجیدہ ہے.
وزیرخارجہ خواجہ آصف نے پہلے ہمارے پروگرام میں بھی یہ بات کہی تھی اور اب نیویارک میں ایشیائی سوسائٹی کی تقریب میں ہونے والے سوالات کے جواب میں بھی انہوں نے حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید سے متعلق کہا کہ ایسے عناصر پاکستان کیلئے بوجھ ہیں مگر ان سے جان چھڑانے کیلئے پاکستان کو وقت چاہئے، خواجہ آصف نے امریکی تنقید پر واضح بھی کیا کہ ماضی میں یہی لوگ امریکا کے لاڈلے تھے، خواجہ آصف سے پہلے امریکا میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی کالعدم تنظیموں کے نام بدل کر کام کرنے اور انتخابات میں ایسی تنظیموں کے حصہ لینے پر سوالات ہوئے تو وزیراعظم نے واضح کردیا کہ ایسا کرنے والوں کو اجازت نہیں دی جائے گی، اب پاکستان کی جانب سے کالعدم تنظیموں سے متعلق اتنا واضح موقف پہلی مرتبہ دیکھا جارہا ہے اور اپنی پالیسی دنیا کے سامنے واضح کرنے کے ساتھ اقدامات بھی سامنے آرہے ہیں۔
شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سعودی عرب ایک ایسی ریاست ہے جس کے بارے میں یہی تاثر تھا کہ وقت تیزی سے آگے بڑھتا گیا لیکن سماجی جدت کے دور میں سعودی عرب کی ریاست کہیں پیچھے رہ گئی، سعودی عرب میں بلندی کا سفر تو ہوا مگر اس سفر میں خواتین کو شامل نہیں کیا گیا، انہیں قدم قدم پر پابندیوں نے روکا،انہیں خود سے آنے جانے کی وہ اجازت نہیں تھی جو مردوں کو تھی، سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خواتین گاڑی نہیں چلاسکتیں لیکن گزشتہ روز ایک اہم فیصلے کا اعلان کیا گیا، سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان نے شاہی فرمان جاری کیا جس میں خواتین کو سعودی عرب میں پہلی بار گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی۔
سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف میں عمران خان کی قیادت پر کوئی اختلاف نہیں البتہ گروپنگ ضرور ہے، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان اختلافات کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں، عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کیلئے دیگر جماعتوں سے رابطوں کی ذمہ داری شاہ محمود قریشی کو دی تو پی ٹی آئی میں کچھ لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا ،شاہ محمود قریشی سے حسد کی وجہ سے پارٹی میں کچھ لوگوں نے اسے مسئلہ بنایا ہے، پی ٹی آئی نمبرز پورے نہ ہونے اور سپریم کورٹ میں عمران خان نااہلی کیس کی وجہ سے نئے اپوزیشن لیڈر کیلئے عمران خان کو سامنے لانے میں محتاط ہے، اگر عمران خان اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکے تو ان کی بہت سبکی ہوگی۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں ایک گروپ ابھی تک گنتی میں نہیں آرہا ہے، وہ گروپ ابھی تک سرکاری بنچوں پر بیٹھا ہوا ہے لیکن کسی وقت بھی تحریک انصاف کی طرف آسکتا ہے، ایسی صورت میں وہ گروپ سرکاری بنچوں سے اٹھ کر اپوزیشن بنچوں میں بیٹھ جائے گا، اگر اس گروپ نے تحریک انصاف کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا تو بہت بڑا اپ سیٹ ہوسکتا ہے، قبائلی علاقوں کے ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ تحریک انصاف کے ارکان کا قریبی رابطہ ہے، پی ٹی آئی کو خدشہ ہے کہ اس کے چار اراکین اسمبلی ان کا ساتھ نہیں دیں گے، اس کمی کو پورا کرنے کیلئے پی ٹی آئی نے فاٹا کے ارکان سے بھی بات کی ہے، فاٹا ارکان کا سرکاری بنچوں کو چھوڑ کر اپوزیشن بنچوں پر آنا کافی مشکل کام ہے لیکن ان کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، فاٹا کے ارکان اسمبلی اگر تحریک انصاف کے ساتھ چلے گئے تو آصف زرداری مشکل میں آجائیں گے اور انہیں مولانا فضل الرحمٰن کو اپوزیشن بنچوں پر آنے کیلئے کہنا پڑے گا۔