جنگ زدہ افغانستان کی صورت ِ حال میں اتنا ابہام اور غیر یقینی پن پایاجاتا ہے کہ بہت سے خیر خواہ پاکستانی سوال کرتے ہیں کہ آخر پاکستان کی افغان پالیسی کیا ہے؟ ٹی وی ٹاک شو ز میں یہ موضوع زیر ِ بحث رہتا ہے ،لیکن سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے دئیے گئے جوابات اس پر بہت زیادہ روشنی نہیں ڈالتے ۔ ایسی بحث و مباحث میں عموماً معروضی حقائق کا فقدان دکھائی دیتا ہے ۔ یہ بات اس حد تک تو قابل فہم ہے کہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کابل میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوںکے رد ِعمل میںبدلتی رہتی ہے ۔اسلام آباد، بلکہ یوں کہنا چاہیے راولپنڈی کے فیصلہ ساز افغان میدان ِ جنگ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیں۔ پاکستان کے تزویراتی ماہرین، جو ملک کی افغان پالیسی وضع کرتے اور اسے حتمی شکل دیتے ہیں، کے ذہنوں میں سب سے اہم چیز سیکورٹی ہوتی ہے۔ اس وقت افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کا محور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کابل میں قائم ہونے والی حکومت پاکستان کی دوست ہو۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ افغانستان میں جس کو بھی اقتدار ملے ، وہ کم از کم پاکستان کے روایتی حریف ، بھارت کی طرف جھکائو نہ رکھتا ہو۔ اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان ہر ممکن حد تک صبر اور تحمل سے کام لیتا ہے ، حالانکہ افغان افسران کے میڈیا اور پارلیمنٹ میں دئیے گئے بیانات پاکستان کے بارے میں عموماً اشتعال انگیز ہوتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ جب افغانستان اپنے نہ ختم ہونے والے مسائل کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالے تو اس پروپیگنڈے کا جواب اسی زبان میں نہ دیا جائے ۔
جب بھی افغان طالبان افغانستان میں کوئی بڑا حملہ کرتے ہیں تو اسلام آباد کابل کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اس کی کابل کو قائل کرنے کی یہ کوششیں بھی رائیگاں گئی ہیں کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا کی طرف جھکائو نہ رکھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت افغانستان اور پاکستان کے تعلقات اپنی پست ترین سطح پر ہیں۔ گزشتہ دوبرسوں کے دوران افغانستان حتمی طور پر بھارت کے کیمپ کی طرف بڑھا ہے ، اور اس دوران پاک افغان تعلقات بد سے بدتر ہوتے دکھائی دئیے ہیں ۔ پاکستان کی افغان پالیسی کا ایک اور اصول افغانستان میں قیام ِ امن کی کوشش میں کردار ادا کرنا ہے ۔ اس کا مطلب افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار بننا ہے تاکہ ان کے درمیان شراکت ِ اقتدار کا کوئی فارمولہ طے پاسکے ۔ افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر راضی کرنا پاکستان کیلئے ایک چیلنج رہا ہے ، اور پھر اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ کیا مذاکرات کے نتیجے میں کوئی معاہدہ طے پاجائے گااور قیام امن کی راہ ہموار ہوجائے گی ؟ اس کے باوجود ، سیاسی مذاکرات ہی پرامن معاہدے کا واحد ذریعہ ہیں جن کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر افغان کشمکش سے براہ ِراست متاثر ہونے والے ممالک،جیسا کہ پاکستان اور ایران کو پیہم کوشش کرنا ہوگی ۔
پاکستان یہ کسی طور نہیں چاہتا کہ افغان طالبان تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک طرف دھکیل کر افغانستان میں حکومت قائم کرلیں۔ اسلام آباد میں ایسی کوئی خواہش نہیں پائی جاتی کہ وہ اقتدار پر قابض ہو کر اُسی طرز ِعمل کا مظاہرہ کریں جو اُنھوں نے 1996 سے لے کر 2001 تک روا رکھا تھا، اور وہ دیگر افغان گروہوں اور غیر پشتون دھڑوں کے ساتھ مسلسل حالت ِ جنگ میں رہے تھے ۔ افغانستان پر اُن کی حکومت سفارتی طور پر تنہائی کا شکار تھی۔ اسے عالمی برادری نے مسترد کردیا تھا۔ اگر وہ اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں تو ایک بار پھر ایسا ہی ہوگا۔ نیز پاکستان کے فوجی حکام کو تشویش ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کی فوجی فتح پاکستانی طالبان اور اُن کے اتحادیوں کے حوصلے بڑھا دے گی اور وہ پاکستان میں ایسی ہی فتح حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اگرچہ پیہم فوجی اپریشنز کی وجہ سے پاکستانی انتہا پسند کمزور ہوچکے ہیںلیکن فوجی قیادت ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے اُن پر سے اپنی توجہ نہیں ہٹاسکتی ۔ کہا جاتا ہےکہ اسلام آباد کے افغان طالبان رہنمائوں کے ساتھ روابط ہیں اور اس نے اُن میں سے کچھ کو پاکستان میں قیام کی اجازت بھی دی ہے ۔ سرتاج عزیز، جو وزیر ِاعظم نوازشریف کو نااہل قرار دئیے جانے والے فیصلے تک اُن کے مشیر برائے امور ِخارجہ تھے ، نے واشنگٹن میں 2015 ء میں ایک تقریر کے دوران پاکستان میں افغان طالبان کی قیادت کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ صرف اسی صورت میں پاکستان اُن کی فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوسکتا ہے ۔ اب یہ اور بات ہے کہ ان روابط کو مثبت طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے اور منفی بھی ۔ مثبت حوالے سے یہ روابط قیام ِامن کی راہ پر آگے بڑھنے کیلئے استعمال ہوسکتے ہیں۔ اور ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب افغانستان میں جنگ جمود کا شکار اور سیاسی عمل مفلوج ہو چکا ہو ۔ ان دونوں محاذوں پر کوئی پیش رفت نہ ہونے سے افغان کشمکش کے خاتمے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر نہیں ہیں جنہوں نے افغانستان میں وسیع تر کردار اداکرنے کیلئے انڈیا کی حوصلہ افزائی کی ہو۔ اس سے پہلے براک اوباما نے اپنے جارحانہ مزاج جانشین کے برعکس یہی بات قدرے سلجھے ہوئے انداز میں کی تھی۔ افغان مسئلے کا فوجی حل تلاش کرنے اور اس میں بھارت کو شامل ہونے کی دعوت دینے سے ملک میں جاری کشمکش مزید گہری اور سفاک ہوجائے گی۔ ٹرمپ نے پاکستان کو اس مسئلے سے الگ کرتے ہوئے چین ، روس اور ایران کی تشویش کو نظر انداز کردیا ہے ۔ اس طرح اُنھوںنے طالبان کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے راستے بند کردئیے ہیں۔
انڈیا نے افغانستان میںدوبلین ڈالر مالیت کے کئی ایک تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبے مکمل کیے ہیں، ان میں سے کچھ پر کام جاری ہے ۔ تاہم اس کا وہاں کردار مشکوک ہے اور پاکستان کیلئے پریشانی کا باعث ہے ۔ انڈیا کا افغانستان میں ایک اہم ہدف وہاں پاکستانی اثر کا توڑ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغان سرزمین انڈیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے استعمال نہ کی جائے ۔ دوسری طرف وہاں بھارت کی بڑھتی ہوئی موجودگی ہمسایہ ملک، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ بلوچستان سے گرفتار کیے جانے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو ، او ر جماعت الاحرار کے کمانڈر اور ترجمان ، احسان اﷲ احسان کے اپنے گروہ سے انحراف کے بعد دئیے گئے بیانات بھارتی کردار پر روشنی ڈالتے ہیں کہ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں اور پاکستانی طالبان کے ذریعے پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کررہا ہے ۔اگر بھارت کو افغانستان میں وسیع تر کردار مل جاتا ہے تو اس جنگ زدہ ملک میں پراکسی جنگوں میں شدت ، اور اس کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں مزید تنائو اور پیچیدگی آجائے گی ۔ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ بھارت کو افغانستان میں بڑا کردارادا کرنے کی دعوت دے کر ایک سے زیادہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ وہ اپنے اس علاقائی شراکت دار کو افغانستان میں استحکام لانے کی ذمہ داری سونپنا ، اور ایسا کرتے ہوئے پاکستان کو دبائو میں لانا چاہتا ہے تاکہ اسلام آباد اس کی منشا کے مطابق چلے ۔ قلیل المدت اہداف کے حصول کیلئے امریکی پالیسی کا افغانستان کی پیچیدہ صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے کامیاب ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ طویل المدت پالیسی کے نتیجے میں نہ تو امریکی افغان جنگ جیت سکیں گے اور نہ ہی افغانستان کو استحکام نصیب ہوگا۔ بلکہ اس کی وجہ سے یہ خطہ مزید عدم استحکام سے دوچار ہوگا جس میں حریف ایٹمی طاقتیں، پاکستان اور انڈیا اپنے کئی ایک تنازعات طے کرنے میں ناکام ہیں، اور جن کے درمیان ایسی فالٹ لائنز موجود ہیں جن کا کوئی بھی ملک فائدہ اٹھا کر انہیں ناقابل ِ بیان بحران سے دوچار کرسکتا ہے ۔