• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 آج شام قومی اسمبلی کے اجلاس میں منتخب ایوانوں کی رکنیت کی اہلیت سے متعلق جو ترمیمی مسودہ قانون منظوری کے لئے پیش کیا جا رہا ہے، بنیادی طور پر یہ ن لیگ کی پارلیمانی تگ و دو ہے جس کا تعلق (جو ہونا چاہئے) منتخب نمائندے کی اہلیت کے معیار کو مزید بڑھانا نہیں بلکہ عوامی نمائندگی کے لئے اہلیت سے محروم ہو جانے والے سابق وزیراعظم کو، جو الیکشن کمیشن کے نا اہلیت کے نوٹیفیکیشن کے بعد اپنی پارٹی کی قیادت کے اہل بھی نہیں رہے، کو پارٹی قیادت کا اہل بنانا ہے۔ اصل میں یہ ایسی صورت تھی (اور ہے) کہ ن لیگ کا بطور پارٹی نظام چلانا تو محال ہو ہی گیا، خود پارٹی کو قابو میں رکھنا بھی مشکل ہوتا جا رہا تھا (اور بدستور ہے)، تاہم سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت اور پی ٹی آئی کے سات سینیٹرز کی موجودگی کے باوجود ن لیگ نے اس مجوزہ ترمیمی قانون کی حمایت میں 37 کے مقابلے میں 38ووٹ حاصل کر کے ایک ووٹ کی برتری سے جو کامیابی حاصل کی ہے، اس نے ن لیگیوں میں بہت حوصلہ پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے قائد کے پارٹی قیادت سے بھی نا اہلی کے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے خلاف بذریعہ سیاسی ابلاغ اور قانونی جدوجہد کریں، اور اسے جاری رکھیں، کیوں نہ کریں، جب انہوں نے ہر حال میں میاں صاحب کی وفاداری نبھانے کا ارادہ باندھ لیا ہے تو پھر ہر دو راہیں (سیاسی ابلاغ میں واضح کرتے رہنا کہ ہمارے پارٹی قائد نواز شریف ہی ہیں) اور ممکن ہو تو وہ قانون بھی تبدیل کر دیا جائے جو اس میں رکاوٹ بنتا ہے کہ، جو رکنیت کی اسمبلی کا اہل نہیں وہ پارٹی کا قائد نہیں ہو سکتا۔ بلاشبہ پاکستانی پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت کا یہ انداز قانون سازی اور پی پی (بشمول چیئرمین سینیٹ) اور پی ٹی آئی کے سینیٹ کے احاطے میں موجود سینیٹرز نے جو رویہ بل منظوری کے لئے ٹیبل ہونے پر اختیار کیا وہ واضح طور پر آئینی روح کے خلاف اور عدالتی فیصلے کے خلاف غیر جمہوری مزاحمت کے مترادف ہے۔ مانا کہ اسٹیٹس کو کے دائرے میں سختی سے رہتے ہوئے یہ ن لیگ کی تو بہت اہم سیاسی ضرورت ہے، لیکن پی پی اور پی ٹی آئی ارکان کا گٹھ جوڑ یا لاپروائی حیران کن ہے۔ پی پی اگرچہ اب ن لیگ کی ٹاپ قیادت کے خلاف جاری احتسابی عمل میں کوئی رحم یا رعایت دیتی معلوم نہیں دے رہی، لیکن ان کی پارٹی کے چیئرمین بل کے ٹیبل ہونے پر کارروائی ڈپٹی چیئرمین کے حوالے کر کے جس طرح باہر کھسک گئے اس نے واضح شکوک پیش کر دیئے ہیں کہ پی پی اپنے سیاسی ابلاغ میں شریف فیملی کے خلاف احتسابی عمل کی تائیدی ہونے کا تاثر عام کرے گی لیکن احتسابی عمل کے خلاف ن لیگی مزاحمت میں یہ عمل کمزور یا سست ہوتا ہے تو فنی انداز میں اس کا ساتھ دیا جائے، یہاں عمران خان کے خدشات کی تصدیق ہوتی ہے لیکن خود پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے بل پیش ہونے پر جو واک اوور حکومتی جماعت کو دیا، وہ کیا ہے؟ عمران خاں ہی پی ٹی آئی میں سب کچھ ہیں، سو عوام کے شکوک دور کرنے کے لئے اس کا جواب بھی انہیں ہی دینا ہو گا، حلقہ وفاداراں اگر سوال نہیں اٹھاتا تو عوام الناس کے اذہان میں جو سوال پیدا ہو رہے ہیں، ان کا واضح جواب عمران خاں نے نہ دیا تو ن لیگ دم توڑ گئی تو پی ٹی آئی اس راہ پر چلے گی اور تیز چلے گی کہ یہ کوئی معمولی لاپروائی یا نا اہلی نہیں ہے۔
شنید تو یہ بھی ہے کہ ن لیگ، پی پی سے اندرون خانہ گٹھ جوڑ کر کے ایسا مسودہ قانون بھی پارلیمنٹ سے منظور کرانے کا سیاسی عزم باندھے ہوئے ہے کہ جرنیلوں اور ججز کا احتساب بھی موجود ریاستی احتسابی ڈھانچے میں تبدیلی کر کے ایسی قانون سازی کرے کہ فوج کے موجود اپنے تنظیمی احتسابی نظام اور جوڈیشل کونسل کی بجائے ججز کو بھی پارلیمنٹ سول انتظامیہ، اور عدلیہ کے احتسابی دائرے میں لایا جائے۔
جس طرح 2008کے بعد ہر دو منتخب حکومتوں کی بدترین گورننس کے بعد ’’احتساب‘‘ میڈیا کا ایجنڈا اور قومی سیاسی ابلاغ کا موضوع بنتا ہوا اب جمہوریت کی بقاء کے لئے ناگزیر قومی ایجنڈا بن چکا ہے اور بن کر ہو بھی رہا ہے، اس کی تشریح بار بار اور ہر طرف سے ہوتے ہوئے یہ تو واضح ہو گیا کہ عوام بحیثیت قوم، دل و جان سے چاہتے ہیں کہ ’’احتساب سب کا ہو‘‘ اور اسے ممکن بنانے کے لئے مزید قانون سازی بھی کرنی پڑے تو کی جائے۔ لیکن کیا موجود سول اور پارلیمانی قوتوں کے خود شفاف ہوئے بغیر، جبکہ ان کے خلاف احتساب کی راہیں کسی سیاسی بحث و تمحیص یا اداروں کی مخاصمت سے نہیں، قدرتی طور پر پاناما لیکس سے نکلیں اور عوام کی شدید خواہش اور جمہوریت، قوم و ملک کی اتنی ہی بڑی ضرورت، جو پورا ہونا تو ایک طرف اس کا آغاز بھی ان ہونی تھی، پوری ہونے کا نتیجہ خیز عمل شروع ہو گیا ایسے میں اسٹیٹس کو کو بچانے کے لئے حکومتی اکثریتی جماعت کو یکدم احتسابی اور عوامی نمائندگی کے قوانین میں ترمیم کی پڑ گئی۔ اسٹیٹس کو کی سیاست کی حد تک اس کا اس راہ پر چلنا غیر قانونی ہے نہ غیر آئینی، لیکن اس مزاحمت قانون سازی سے یہ بھی واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ ن لیگ کس حد تک آئین و قانون کو بھی اپنے بنائے عوام دشمن سیاسی حکومتی نظام کے تحفظ کا ہتھیار بنانے پر کتنا یقین رکھتی ہے۔ اسے ان کمزور ملزمان اور مجرموں کی کوئی پروا کبھی ہوئی نہ اب ہے کہ جو چھوٹی چھوٹی چوری چکاری یا ڈاکہ کو ’’روزگار‘‘ سمجھنے والوںکے تحفظ اور ریلیف کے لئے (یا اصلاح کے لئے ہی سہی) کوئی چھوٹی موٹی ترمیم یا قانون سازی کریں۔ یہ ثابت نہیں کرتا کہ ن لیگ فقط اپنے آپ کو ہی مقدس گائے سمجھتی ہے، اپنے بھی کوئی سارے نہیں، صرف قائدین، ان کے معاونین اور حواری درباری۔ وگرنہ سانحہ ماڈل ٹائون کا واحد سزا یافتہ مجرم گلو بٹ اور ڈان لیکس کے تین اپنے ہی بزرگ ہیں۔ ن لیگ ہوش کے ناخن لے اس پس منظر میں اگر وہ متذکرہ طرز کی مزاحمتی قانون سازی کرتی ہے اور اسے ہتھیار بنا کر عدلیہ کے موجودہ قوم و ملک دوست آئین کردار اور فوج کی ’’آئین و قانون کی بالادستی‘‘ کی تازہ ذہنی (دونوں ثابت شدہ) پر بذریعہ مزاحمتی قانون سازی حملہ آور ہوتی ہے تو پی پی (اگر وہ سینیٹ کی طرح ن لیگ کا ساتھ دیتی ہے) اور ن لیگ دونوں کے لئے اس کے سنگین نتائج نکلیں گے۔ اگرچہ فرینڈلی کورٹس اور فیملی ججز کے بیتے زمانے میں ن لیگ کو کبھی ججز کے احتساب کا ہوش آیا نہ اسٹیبلشمنٹ سے ہنی مون کے زمانے میں، آیا تو جب آیا تب ہر دو ریاستی ادارے اپنے آئینی کردار کی قابل قدر ادائیگی میں خود کو قوم سے نہیں دنیا زمانے سے منوا چکے ہیں اور یہ جو آج اسمبلی میں مزاحمتی قانون سازی کر کے میاں صاحب کو دوبارہ سے پارٹی قیادت کے لئے اہل بنانے کی ’’آئینی کارروائی کی جا رہی ہے۔ کیا الیکشن کمیشن میں ن لیگ کا داخل کیا پارٹی کا آئین ن لیگی اراکین اسمبلی کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ایسی شخصیت کو پارٹی قائد بنائیں (یا بنا سکتے ہیں) جو قانوناً تاحیات رکن اسمبلی کی اہلیت کھو بیٹھا۔ پی پی اور پی ٹی آئی ارکان میں اگر ن لیگیوں سے کوئی سیٹی نہیں ملی تو ذرا الیکشن میں رجسٹریشن کے لئے داخل ن لیگ کے پارٹی آئین کا مطالعہ بھی کر لیں شاید پارٹی آئین انہیں اس کی اجازت نہ دیتا ہو۔

تازہ ترین