اس وقت جماعت ِاسلامی، جو خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت،پاکستان تحریک ِ انصاف کی واحد شراکت دار ہے، اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔اس نے بنک آف خیبر کے منیجنگ ڈائریکٹر، شمس القیوم کو عہدے سے ہٹانے کے لئے کئی ماہ تک مہم چلائی کیونکہ وہ صوبائی وزیر ِ خزانہ، مظفر سید پر بدعنوانی، اختیارات سے ناجائزفائدہ اٹھانے اور بنک کے معاملات میں مداخلت کے الزامات لگارہے تھے۔ مظفر سید کا تعلق جماعت ِاسلامی سے ہے، اور وہ اس جماعت کے مضبوط گڑھ، لوئردیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ الزامات خاصے تکلیف دہ تھے کیونکہ وہ اس وقت لگائے گئے جب جماعت ِاسلامی نے بدعنوانی کے خلاف ملک گیر مہم چلائی ہوئی تھی۔ بہت سوں نے ان الزامات پر یقین کرنا شروع کردیا کیونکہ ماضی میں بھی جماعت ِاسلامی اپنے وزرائے خزانہ کے ذریعے بنک آف خیبر کو کنٹرول کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔
جماعت اسلامی آخر کار وزیر ِاعلیٰ، پرویز خٹک پر دبائو ڈال کر بنک کے منیجنگ ڈائریکٹر کو برطرف کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ پی ٹی آئی کے دبائو میں آنے کی وجہ وہ کمزوری تھی جس کا اسے آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی کو صوبائی حکومت کے کولیشن سے نکالنے پر سامنا تھا۔ اس کامیابی کے لئے جماعت ِ اسلامی نے بہت محنت کی تھی کیونکہ اس سے پہلے وہ اس بینکار کے خلاف اپنا حساب کتاب برابر کرنے میں لاچار دکھائی دیتی تھی۔
شمس القیوم کوئی کمزور بینکار نہیں تھے۔ اُنہیں مخصوص سرکاری اور سیاسی حلقوں کی پشت پناہی بھی حاصل تھی اور اُنھوں نے قبل از وقت عہدے سے ہٹائے جانے کو عدالت میں چیلنج کردیا، اور فیصلے نے طرفین ( شمس القیوم اور خیبرپختونخوا حکومت)کو باعزت واپسی کا راستہ فراہم کردیا۔ اس سے پہلے جماعت ِاسلامی کے موقف کی تائید کابینہ کی ایک کمیٹی نے کی تھی جس کی تحقیقات نے شمس القیوم کو قصوروار پایا اور مظفر سید کو تمام الزامات سے بری کردیا تھا۔
جماعت ِاسلامی تعلیم کے شعبے میں مخصوص تبدیلیاں لانے کے پی ٹی آئی کے فیصلے کی راہ میںمزاحم ہے، خاص طور پر جن کا تعلق اساتذہ کی بھرتی سے ہے۔ ان دونوں دیرنیہ اتحادی جماعتوں کے تعلقات میں گرمجوشی کا فقدان رہا ہے کیونکہ صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی برتری کی وجہ سے پی ٹی آئی بعض اوقات جماعت ِاسلامی سے مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کرتی، یا اس کے موقف کو یکسر نظر انداز کردیتی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کا خیال ہے کہ اس نے جماعت ِاسلامی کو صوبائی حکومت میں کافی نمائندگی اور اختیارات دے رکھے ہیں حالانکہ خیبر پختونخوا کی 125ارکان کی اسمبلی میں اس کے ایم پی ایز کی تعداد صرف سات ہے۔ جماعت ِاسلامی کے تین وزرا، عنایت اﷲ، مظفر سید اور حبیب الرحمٰن کے پاس مقامی حکومتوں، مالیات اور مذہبی امور اور اوقاف جیسی اہم وزارتیں ہیں۔
صوبائی اسمبلی میں جماعت ِ اسلامی کے ارکان کی تعداد کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اسے حکومت میں اپنی طاقت سے زیادہ حصہ ملا ہوا ہے، اور اکثراوقات پی ٹی آئی کے قانون سازاس بات کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتے، خاص طور پر وہ، جو وزارتوں میں حصہ چاہتے ہیں، یا جو ’’بے کیف وزارتوں ‘‘ کو اپنے لائق نہیں سمجھتے۔ درحقیقت جماعت ِاسلامی کو کبھی بھی اتنا اچھا موقع نہیں ملا کہ اس کی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد اتنی کم ہو اور اسے حکومت میں اتنی بھرپور نمائندگی مل گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے گاہے گاہے اشتعال انگیزی، جیسا کہ یک طرفہ طور پر، کسی مشاورت کے بغیر فیصلے کرنا، کے باوجود جماعت اسلامی کولیشن میں موجود ہے۔
جماعت ِاسلامی ایک نظریاتی مذہبی جماعت ہے، لیکن اس کی سیاست، چاہے اسمبلیاں ہوں یا مقامی حکومتیں، بنیادی طور پر روایتی، حلقوں اور منتخب نمائندوں کے گرد گھومتی ہے اوریہ اپنے ووٹروں کی تھانے اور کچہری میںمددکرنے کی ضرورت کو سمجھتی ہے۔ اس قسم کی سیاست اُسی وقت کی جاسکتی ہے جب پارٹی حکومت میں نمائندگی اور اپنے ووٹروں کی مدد کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ جماعت ِاسلامی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کو 2008 ء کے عام انتخابات سے بائیکاٹ کرنے کے فیصلے نے سخت نقصان پہنچایا کیونکہ اس فیصلے کی وجہ سے جماعت ِاسلامی اسمبلیوں سے باہر ہوگئی۔
پی ٹی آئی کے پاس بھی بعض معاملات پر جماعت ِاسلامی کے موقف پر شکایت کی وجہ موجود ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ جماعت ِاسلامی صرف صوبائی نہیں، وفاقی حکومت کے معاملات پر بھی اس کی حلیف ہو۔ پی ٹی آئی کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب جماعت ِاسلامی نے وزیر ِاعظم نواز شریف کو منصب سے ہٹانے کے لئے اس کی پرزور مہم کی حمایت سے گریز کیا تھا۔ دوسری طرف جماعت ِاسلامی کا موقف رہا ہے کہ اس کی پی ٹی آئی کے ساتھ شراکت صرف خیبرپختونخوا تک ہی محدود ہے۔ نیز یہ شراکت داری ایشوز کی بنیاد پر ہے۔
درحقیقت قومی وطن پارٹی بھی جماعت اسلامی کی طرح یہی موقف اختیار کرتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کی جارحانہ مہم کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی۔ پی ٹی آئی نے قومی وطن پارٹی کو دومرتبہ صوبائی حکومت سے سرخ جھنڈی دکھائی۔ ایک مرتبہ اس کے وزرا پر بدعنوانی کا الزام لگاکر، اور دوسری مرتبہ نوازشریف اور پی ایم ایل (ن) کے خلاف اس کی سیاسی مہم کا حصہ نہ بننے پر۔ تاہم پی ٹی آئی نے جماعت ِاسلامی کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہ کی کیونکہ وہ اسے قومی وطن پارٹی سے زیادہ قابل ِاعتماد حلیف سمجھتی ہے۔ نیز 2018 ء کے عام انتخابات میں ایسی صورت ِحال رونما ہوسکتی ہے جب دیگر سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی سے اتحاد نہ کرپائیں تو پھر جماعت ِاسلامی ہی اس کی ممکنہ انتخابی حلیف ہوسکتی ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف صوبائی حکومت کے بچائو کے لئے جماعت ِاسلامی کو اپنے ساتھ رکھے بلکہ کوشش کرے کہ اگلے عام انتخابات میں دونوں جماعتوں کے درمیان اتنا اعتماد موجود ہو کہ وہ مل کر انتخابی معرکے میں حصہ لے سکیں۔
بدعنوانی سے پاک حکومت سازی کی سوچ اور دیگر نظریات اور تصورات کے اعتبار سے جماعت ِاسلامی اور پی ٹی آئی کے درمیان بہت سی چیزیں مشترک، لیکن ان کے حامی ایک دوسرے سے مختلف ہیں،ان کی اقدار ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتیں، اس لئے ان کے درمیان مشترکہ انتخابی پلیٹ فارم قائم کرنے کے لئے جوش کا فقدان ہوسکتا ہے۔ جماعت ِاسلامی کا پی ٹی آئی کے ساتھ الائنس مذہبی شناخت کے ساتھ سیاست میں آنے والی کچھ پارٹیوں کی متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) کی بحالی کی خواہش کے راستے میں رکاوٹ ہوسکتا ہے۔ چھ دینی جماعتوں کے الائنس نے 2002 ء کے انتخابات میں شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے خیبر پختونخوا میںنمایاں کامیابی حاصل کی اور صوبائی حکومت قائم کرلی۔ اس کے علاوہ یہ ا لائنس بلوچستان میں حکومتی کولیشن،اور پی ایم ایل (ق) کی وفاقی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا نمایاں حصہ بنا۔ اُس وقت ق لیگ فوجی حکمران، جنرل پرویز مشرف کی تخلیق کردہ کنگز پارٹی تھی جو اُنھوںنے سیاست میں اپنا کردار باقی رکھنے کے لئے قائم کی تھی۔
مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی (ف)، جو 2002 ء کے انتخابات میں اسمبلیوں میں بہتر نمائندگی کی وجہ سے ایم ایم اے کا غالب حصہ تھی، پی ٹی آئی کے ساتھ صوبائی حکومت میں شرکت کرنے پر جماعت ِاسلامی کوکڑی تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے۔جے یو آئی (ف) اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔ جے یو آئی (ف) عمران خان پر یہودیوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتی رہی ہے، اور اس کے خیال میں جماعت ِاسلامی نے ان کے ساتھ شراکت داری قائم کرکے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔
دکھائی یہی دیتا ہے کہ جماعت ِاسلامی اور پی ٹی آئی کی شراکت داری جہاں تک ممکن ہوسکا، چلتی رہےگی کیونکہ اگلے انتخابات تک حکومت میں رہنے کا جماعت ِاسلامی کو فائدہ ہے۔ وہ اپنے اہم ترقیاتی منصوبے مکمل کرسکتے ہیںاور اپنے نمائندوں کے انتخابی حلقوں کیلئے سکیموں پر عمل درآمد کرکے مزید ووٹروں کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔ انکی علیحدگی اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی الزام تراشی نہ صرف اس مقصد کو نقصان پہنچائے گی بلکہ انکی غلطیاں بھی طشت از بام ہوں گی۔چنانچہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جماعت اسلامی 2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت سے رخصت نہیں ہوگی تاوقتیکہ کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے۔