اسلام آباد( محمد صالح ظافر+ خصوصی تجزیہ نگار) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کا جڑواں شہر راولپنڈی غیر معمولی سرگرمیوں کے مراکز بن کر رہ گئے ہیں قومی اسمبلی اورپارلیمنٹ ہائوس دیروزہ ہنگامہ پرور کارروائیوں کے بعد منگل کو تقریباً ویرانی کی منظر گاہ تھے جن کی رونقیں برقرار واقعی طورپر ایک ہنگا مے پر موقوف رہتی ہیں منگل کو قومی اسمبلی میں ارکان کی نجی کارروائی کا دن تھا اور مختلف ارکان کی طرف سے پیش کردہ نجی قراردادیں، تحاریک اور قانون سازی کے مسودات ایوان میں زیرغورتھے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اور وفاقی کابینہ کا اجتماع بیک وقت دو مختلف عمارتوں میں منعقد ہو رہے تھے یہ اولین موقعہ تھا کہ موجودہ پارلیمان اور کابینہ کے اجلاس باہم متصادم تھے جہاں وفاقی وزرا پرلازم ہوتا ہے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوں اس طرح ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ فرصت نکال کر پارلیمانی ایوانوں میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں۔
ملک کی سیاسی تاریخ میں منگل کو ایک روشن دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اس کے عوام میں مقبول ترین رہنما نوازشریف کو نو ہفتے تک جبراً ایک دوسرے سے الگ رکھنے کے بعد بڑے تدبر و فراست کے مظاہرے سے باردگر مربوط کر دیاگیا حکمران پاکستان مسلم لیگ (نون) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں بے پناہ جوش و خروش کے درمیان نواز شریف کو پارٹی کا صدر منتخب کر لیاگیا وہ ٹھیک ایک سال قبل جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں چار سال کی مدت کیلئے حکمران مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تھے اب ایک سال بعد انہیں دوبارہ چار سال کے لئے پارٹی کا صدر چن لیاگیا ہے اس طرح ان کے موجودہ چنائو کی مدت پانچ سال بن گئی ہے انہیں نو ہفتے قبل ناکردہ گناہوں کی پاداش میں وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی صدارت سے محروم کر دیا گیا تھا ان پر الزام عائد کیاگیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ وصول نہیں کی تھی۔ مسلم لیگ کا صدر منتخب ہونے کے بعد نوازشریف کے لطیف پیرائے میں یہ انکشاف کردیا کہ وہ بطور وزیراعظم بھی تنخواہ نہیں لے رہے تھے۔ اس طرح ان کے خلاف نئی فرد جرم بھی وضع کی جاسکتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ )(نون) کے حوالے سےاڑتالیس گھنٹوں میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں نے اڑتالیس مہینے کی ریشہ دوانیوں پر پانی پھیر دیا جو اس کی قیادت کے خلاف جاری تھیں نوازشریف کے پاکستان مسلم لیگ (نون) کا دوبارہ صدر بن جانے پر ان کے مخالفین جس طور پر چراغ پا ہو رہے ہیں ان پر جس انداز میں دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہیں وہ ثابت کر نے کے لئے کافی ہیں کہ انہیں یقین ہو چکا ہے کہ وہ نوازشریف کو سیاسی طور پر نہیں ہرا سکتے اور ان کی عوامی مقبولیت پر نقب نہیں لگا سکتے ان حالات میں ان کا دائو صرف اس صورت میں ہی لگ سکتا ہے کہ نوازشریف کو کسی فنی دائو پیچ کے ذریعے میدان سے ہی باہر نکال دیا جائے۔ یہ طرفہ تماشا نہیں کہ ملک عزیز میں ایک سیاسی پارٹی کے چیئرمین سے کوئی بازپرس نہ کرے جبکہ ملک کے وزیراعظم کو جس کے خلاف بدعنوانی کا کوئی معاملہ ہی موجود نہ ہو اسے ہوائی ’’الزامات کی پاداش میں اس کے منصب سے محروم کر دیا جائے اور اسے ملک و قوم کی خدمت سے بھی روک دیا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے مخالفین کو خوش ہونا چاہئے کہ ان کی نظرمیں ایک برا شخص اس پارٹی کا سربراہ بن گیا ہے جس سے ان کی دانست میں اس پارٹی کو نقصان پہنچنا چاہئے وہ اس پر واویلا مچا رہے ہیں کبھی وہ عدالتوں سے رجوع کرنے کی دھمکی دیتے ہیں اور کبھی ایجی ٹیشن کی راہ اختیار کرنے کی باتیں کررہے ہیں یہ سب پھوکےفائر ہیں۔ عدالتیں انتخابات کے لئے کسی کو نااہل قراردے سکتی ہیں لیکن سیاست سے کسی شخص کو نااہل قرار دینا عملی لحاظ سے ممکن نہیں ہوتا۔ ملکی قانون میں عدالتی نااہل قرار پانے والوں کوسیاسی جماعتوں کا علم بردار بنائے جانے کی گنجائش پیدا کرکے مسلم لیگ (نون) نے بعض دیگر جماعتوں پر بھی احسان کیا ہے جن کی قیادت بہت جلد نااہلی کے انجام سے دوچار ہونے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی ایوان بالا میں ’’شاندار‘‘ حکمت عملی کے تحت انتخابی اصلاحات کے قانون کو منظور کر ایا گیا اور پھر قومی اسمبلی سے منظوری کے موقعہ پر دکھاوے کی مذاحمت اور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔