کراچی(جنگ نیوز)وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہمیں اس وقت اپنے گھر کو ایک سمت سے نہیں کئی سمتوں سے ٹھیک کرنا ہے، آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ہمارا ہر مذہبی تہوار ڈرائونا سیکیورٹی خواب بن گیا ہے، کیا یہ گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں کو بھی پورا سیکیورٹی کور دیتے ہیں جیسے پتا نہیں کوئی دفاعی پریڈ ہے، گھر تو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، ستر سال کا پورا تجربہ ہے آج بھی ہم وہی غلطیاں دہرارہے ہیں، وہی کام کررہے ہیں جو ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا جو ہم نے محمد خان جونیجو کے ساتھ کیا، جو ہم اس سے پہلے تاریخ میں کھیلتے رہے، آخر کب ہم ایک نارمل قوم بنیں گے، کب ایک نارمل سٹم بنیں گے، کیا ہم ایک ابنارمل سسٹم کے اندر ہی رہیں گے۔
بیجنگ میں چینی سرمایہ کاروں نے مجھ سے کہا کہ اگر اپنے ملک کے وزیراعظم کو اس طرح جیسے کسی بال کو مکھن سے نکالیں، اتنی آسانی سے اگر آپ وزیراعظم اٹھا کر پھینک دیتے ہیں ہم تو غیرملکی ہیں ہماری سرمایہ کاری ہم آپ کے ملک میں کتنی محفوظ تصور کریں یہ درست بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اسٹاک مارکیٹ کے اندر ہمیں سولہ ارب ڈالر ڈبوچکے ہیں۔ درجہ چہارم کے ملازم کو برطرفی کے خلاف تین اپیلوں کا حق ہے، وہ سروس ٹریبونل میں جاسکتا ہے، وہ ہائیکورٹ میں جاسکتا ہے، وہ سپریم کورٹ میں جاسکتا ہے اورا س کو انصاف مل سکتا ہے، اس ملک کے بیس کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم کوآپ برطرف کرتے ہیں اور اس کو اپیل کا ایک حق بھی نہیں دیتے، کیا یہ انصاف ہے، اسے کون انصاف مانے گا؟ وہ ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کر رہے تھے۔
احسن اقبال نے کہا کہ اس وقت ہم ابنارمل حالات میں ہیں، ابھی میں چائنا گیا ہوا تھا وہاں میری چائنیز حکام سے ملاقات ہوئی تو کئی چائنیز سرمایہ کار جو پاکستان میں دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے بھی ملاقات کی، میں آپ کو بتاؤں کہ دل بڑا رنجیدہ ہوا کہ ایسے سرمایہ کار جو پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری لانے کے لئے کمربستہ ہوگئے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ میری معلومات کے مطابق آپ تو پاکستان کے لئے تیار تھے، انہوں نے کہا کہ اگر اپنے ملک کے وزیراعظم کو اس طرح جیسے کسی بال کو مکھن سے نکالیں، اتنی آسانی سے اگر آپ وزیراعظم اٹھا کر پھینک دیتے ہیں ہم تو غیرملکی ہیں ہماری سرمایہ کاری ہم آپ کے ملک میں کتنی محفوظ تصور کریں ، ہمیں بعض اوقات اپنے اقدامات کے اثرات اور بین الاقوامی اثرات کا اندازہ نہیں ہوتا، میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اسٹاک مارکیٹ کے اندر ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے سولہ ارب ڈالر ڈبوچکے ہیں، یہ وہ سارے circumstaces ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ ابھی ہوسکتا ہے عمران خان اس کے بینیفیشری بن جائیں، ابھی ان کا کیس چل رہا ہے، اگر وہ نااہل ہوجاتے ہیں تو وہ بھی اس کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ایک سوال پر احسن اقبال نے کہا کہ میری وزارت کا درجہ چہارم کا چپراسی، نائب قاصد، ڈرائیور، اگر میں برطرف کروں، اس درجہ چہارم کے ملازم کو برطرفی کے خلاف تین اپیلوں کا حق ہے، وہ سروس ٹریبونل میں جاسکتا ہے، وہ ہائیکورٹ میں جاسکتا ہے، وہ سپریم کورٹ میں جاسکتا ہے اورا س کو انصاف مل سکتا ہے، اس ملک کے بیس کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم کوآپ برطرف کرتے ہیں اور اس کو اپیل کا ایک حق بھی نہیں دیتے، کیا یہ انصاف ہے، اسے کون انصاف مانے گا، اسی لئے دنیا بھر کے اندر سپریم کورٹ کے فیصلے پر جو تبصرے لکھے گئے ہیں کسی جگہ رول آف لاء کی بات نہیں کی گئی، ہر جگہ اس فیصلے کو جمہوریت کیلئے سیٹ بیک کہا گیا ہے، اس کے اوپر جو خاکے بنائے گئے ہیں وہ ملک کیلئے شرمناک ہیں کہ ہماری عدلیہ کے بارے میں اس طرح کے خاکے بنائے جائیں، اسی لئے میں کہتا ہوں کہ we have to put our house in order کئی لوگ ہمیں فلسفے سناتے ہیں کہ ٹیکنوکریٹ، پاکستان میں جمہوریت نہیں، مجھے بتایئے کہ پاکستان کے عوام میں ہندوستان کے عوام سے کیا کمی ہے، کیا ہندوستان کا الیکٹوریٹ پی ایچ ڈی ڈگری رکھتا ہے، جو نظام وہاں ستر سال سے چل رہا ہے ہمارے ملک میں uninterupted کیوں نہیں چل سکتا، ہم ان سے بہتر ہیں، ہمارے ہاں کرپشن ان سے کم ہے، ہمارے ہاں سیاست اور کرائم کا nexus ان سے کئی درجے کم ہے، ہم بہت بہتر ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت جس کوا ٓج سب کہتے ہیں بہت بہترین حکومت تھی، کان سے پکڑ کرنکال دیا گیا، اور جو چارج شیٹ لگائی گئی وہ یہ تھی جیسے محمد خان جونیجو سے بڑا چور کوئی نہیں ہے اور ایک فضا بنادی گئی کہ پتا نہیں کتنے بڑے لٹیرے اس اسمبلی کے اندر۔ بعد میں پتا چلا وہ سب بیکار ہے، نواز شریف کو بالکل اسی طرح نکالا گیا جیسے محمد خان جونیجو کو نکالا گیا، تیس سال میں ہم وہیں 1988ء میں واپس آگئے ہیں۔ حامد میر: آپ نے آج بات کر ہی دی ہے تو یہ بھی تو مان لیں کہ جب محمد خان جونیجو کو ضیاء الحق نے نکالا تو نواز شریف نے ضیاء الحق کا ساتھ دیا؟ احسن اقبال: دیکھئے یہ وہ سبق ہے، سیاست میں آپ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور نواز شریف صاحب ان دونوں نے اپنی سیاست کا آغاز ڈکٹیٹر شپ کی چھاؤں میں کیا لیکن ان کے تجربے نے ان کو بتایا کہ پاکستان کے عوام کی خدمت کرنی ہے تو آپ کو رائٹ سائڈ آف دا ہسٹری پرہونا پڑے گا، جب یہ دونوں right side of history پر آئے تو تب ہی یہ نشانہ بنتے رہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں ، دیکھئے میرے بال بھی سفید ہوگئے ہیں، ہم نے ساری زندگیاں اس کام میں دے دی ہیں، عمران خان مجھے کہتا ہے اس کا ضمیر نہیں ہے، طعنے دیتا ہے، ہماری سیاست کا لیول یہاں پر آگیا ہے کہ ایک ایسا self rightest بندہ آگیا ہے جو سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے ویزوں کی کتاب اس کو دیدی ہے کہ جس کو وہ ویزہ دے گا وہ نیک،حاجی، صادق اورا مین ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ آج عمران خان جلسوں میں کھڑے ہو کر ہمیں گنواتے ہیں کہ ترکی نکل گیا، انڈیا نکل گیا، بنگلہ دیش چلا گیا، کوریا چلا گیا، میں ان کوادب سے کہنا چاہتاہوں کہ اگر ان ملکوں میں ایک عمران خان اور دھرنے والے بھیج دیئے جائیں تو ان کی بھی ساری ترقی کریش ہوجائے گی، خان صاحب یہ اس لئے ہم سے آگے نکلے کہ انہوں نے سیاسی استحکام پیداکیا اور ہم میوزیکل چیئرز کے اندر پھنسے رہے۔ حامد میر: خان صاحب کی بھی بات کرلیتے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں عمران خان کے آج کل بڑے قریبی ساتھی ہیں جناب شیخ رشید احمد صاحب، شیخ رشید احمد نے ایک بات کی ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کے تابوت میں کیل ٹھونکا جارہا ہے؟ احسن اقبال: جمہوریت کے تابوت میں کیل نہیں ٹھونکی، جنرل مشرف کے پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس کے تابوت میں کیل ٹھونکی ہے، دوسری بات جو انہوں نے کی، دیکھئے اپوزیشن سیاست میں بالکل مایوس ہوگئی ہے، یہ ایسے ایسے پراپیگنڈے کرتے ہیں جس سے انہیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع ملے، آج وزیرقانون نے وضاحت کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ختم نبوت کی ڈیکلریشن کو ختم نہیں کیا گیا، that is very much part of this bill اور یہ کسی قسم کا پراپیگنڈہ کے ختم نبوت کی شق کو ختم کیا گیا ہے یہ شرانگیز ہے اور بے بنیاد ہے۔حامد میرکے اس سوال پر آپ نے کہا یہ جو مشرف کا قانون تھا اس کو مشرف کی طرف لوٹادیا ہے، مشرف کب لوٹ کر آئیں گے؟ احسن اقبال نے کہا کہ مشرف بھی ضرور لوٹیں گے اور قانون کے ذریعے لوٹیں گے، ہم کسی قسم کا یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ کوئی انتقامی کارروائی کررہے ہیں، ایک بات میں اور کہنا چاہوں گا، یہ شیخ رشید صاحب اور ان کی بٹالین، ہم ثبوت اکٹھا کررہے ہیں، پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم اس وقت سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن اور فوج کے درمیان بداعتمادی پیدا کرنے کے لئے فوج کے حوالے سے گالیاں لکھ کر اور اوپر اس کو ماسک کر کے پی ایم ایل این کے اکاؤنٹ سے۔حامد میرکے اس سوال پر کہ خواجہ آصف نے ایک ٹوئٹ بھی کیا ہے۔
احسن اقبالنے کہا کہ جی ہاں، میں نے بھی کیا ہے، پہلے میں نے کیا تھا پھر خواجہ صاحب نے کیا، ایک پوری بڑی گھناؤنی مہم چلارہے ہیں، یہ مایوس ہوگئے ہیں کہ ووٹوں سے ہم اقتدار میں نہیں آسکتے، ان کا ایک بڑا گھناؤنا کھیل ہے، وہ یہ ہے کہ فوج اور مسلم لیگ ن کی حکومت کولڑادو، شاید ہمارا اس طرح داؤ لگ جائے، میں سمجھتا ہوں اس میں بھی یہ ناکام ہوں گے۔ حامد میرکے اس سوال پر یہ جو آپ نے کہا ہے نومور، نو مور، enough is enoush یہ کس کوکہہ رہے ہیں؟ احسن اقبال نے کہا کہ وہ تو میں ان لوگوں کو کہہ رہاہوں جو شیخ رشید جیسے، عمران خان جیسے سازشوں میں لگے ہوئے ہیں، یہ چور دروازے سے اس ملک کے اندر جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، یہ ہر قیمت پر چاہتے ہیں کہ سازشوں کے ذریعے ہم ملک کے اندر ایسے حالات پیدا کریں جس سے فتنہ انگیزی ہوں، میں یہ بات ان کو واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ان کی سازشیں اب کامیاب نہیں ہوں گی اور ہم ان کو پہچان چکے ہیں، پاکستان کے عوام پہچان چکے ہیں، 2018ء کے الیکشن میں آپ دیکھئے سوال صرف ایک ہوگا کہ کیا 2018ء کا پاکستان 2013ء سے بہتر ہے یا بدتر ہے، عمران خان صاحب آپ مجھے افلاطون کہہ لیں پاکستان کا ہر ووٹر اب افلاطون اور ارسطو ہے، وہ جانتا ہے کہ پاکستان کی معیشت، پاکستان کی توانائی، پاکستان کی دہشتگردی کی جنگ۔
حامد میرکے اس سوال پر کہ کل انہوں نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کررہے ہیں، پھر آپ نے ایک ٹوئٹ کی، اس میں آپ نے ایک اپنی پرانی تصویر لگائی، آپ کے اور عمران خان کے درمیان کافی عرصے سے میں دیکھ رہا ہوں۔ احسن اقبال نے کہا کہ اب دیکھئے وہ مجھے طعنہ دے رہے ہیں کہ یہ جمہوریت کی ڈکشنری بتائے، جب میرے ساتھ یہ سب کچھ ہورہا تھا، عمران خان تو مشرف کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے، مشرف ان کا مربی تھا۔ حامد میر: لیکن کچھ عرصہ کے بعد عمران خان کو بھی مشرف نے گرفتار کیا تھا؟ احسن اقبال : وہ تو پھر مکافات ہے، ڈکٹیٹرشپ میں کسی کی گنجائش نہیں بنتی، وہ آپ کو استعمال کرتی ہے، وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے پھر آپ کو بھی بھگتنا پڑتا ہے، اس لےء میں عمران خان کو ادب سے کہوں گا کہ یہ جو کردارکشی ہے، پچھلے چار سالوں میں حکومت کا کوئی اسکینڈل نہیں آیا، آج مجھے دکھ ہوتا ہے، میں آپ کے پروگرام سے کہنا چاہتا ہوں، when I look at Ishaq dar میں گواہ ہوں کہ کس طریقے سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے، بیس بیس گھنٹے اس شخص نے اس ملک کی مردہ معیشت کوپیروں پر کھڑا کرنے کے لئے بین الاقوامی حلقوں میں اس کی عزت بحال کرنے کے لئے کام کی ہے، ایک ایسے شخص کو آج آپ شاباش نہیں دے سکتے تو اس طرح اس کو مجرم بنا کر بھی رسوا نہ کریں دنیا کے سامنے اور گھر کے سامنے۔
نواز شریف کا کیا قصو ر ہے کہ اس نے پاکستان کس حال میں ملا تھا کہاں پہنچادیا، آج ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں، جب قوم اپنے محسنوں کے ساتھ اس طرح سلوک کرتی ہے تو اس کو خیر نہیں ملتی اور یہ جوایک پوری منظم مہم ہے ہمارے مخالفوں کی طرف سے چونکہ وہ سیاسی طور پر یتیم ہوگئے ہیں، وہ کردار کشی پر تلے ہوئے ہیں، ان کے اس پراپیگنڈے کو دیکھ کر لوگ ہمیں ووٹ نہیں دیتے، میرے حلقے میں مثال کے طو ر جو ووٹ ہے وہ عمران خان مجھے ارسطو کہیں، افلاطون کہیں، اس کو سن کر لوگوں نے نہیں دینا، انہوں نے دیکھنا ہے کہ میں نے اپنے علاقے میں کیا خدمت کی ہے، کیا میں نے ڈویلپمنٹ کی ہے۔