اسلام آباد کی احتساب عدالت میں آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب کے دو گواہ عدالت میں پیش ہوئے ۔کیس کی سماعت 12اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے نیب ریفرنس کی سماعت کی۔
ایک گواہ اشتیاق علی کا بیان اورگواہ پر جرح کا عمل مکمل ہوگیا، استغاثہ کےگواہ اشتیاق علی نےاسحاق ڈار کےبینک اکاؤنٹ کی اسٹیٹمنٹ، ٹرانزیکشنز پیش کردیں۔
عدالت نے استغاثہ کے گواہ شاہد عزیز اور طارق جاوید کو طلبی کے سمن جاری کردیے۔
اشتیاق علی نے اپنے بیان میں کہا کہ کاغذات ریکارڈکےمطابق فراہم کررہاہوں، میں نے بینک 2005 میں جوائن کیا۔ ریکارڈسال2001 کا ہے۔
اسحاق ڈار کا بینک اکاؤنٹ 2006 میں بند ہوگیا تھا، اکاؤنٹ میں آخری ٹرانزیکشن 2005میں ہوئی۔
اسحاق ڈار کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض کیا کہ یہ دستاویزات قابل قبول نہیں اور قانون شہادت کے مطابق نہیں۔ نیب نے اثاثہ جات ریفرنس میں غیر متعلقہ گواہ پیش کیا، جس وقت کی دستاویزات پیش کی گئیں اس وقت یہ بینک ملازم ہی نہ تھے۔ گواہ نے نہ یہ دستاویزات تیار کیں اور نہ ہی یہ ان کی تحویل میں تھیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار احتساب عدالت کے روبرو تاخیر سے پہنچے جس پر سماعت کچھ دیر کے لئے ملتوی کی گئی۔
جب سماعت شروع ہوئی تو جج محمد بشیر نے ملزم اسحاق ڈار کی موجودگی سے متعلق استفسار کیا تو نیب حکام نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو 8 بجے یہاں آنا چاہیے تھا، وہ کیوں انتظار کروا رہے ہیں جس پر عدالت نے سماعت 20 منٹ کے لئے ملتوی کی تو اسحاق ڈار وکلا کے ٹیم کے ہمراہ کچھ دیر بعد عدالت پہنچے۔
اثاثہ جات ریفرنس کے ملزم وزیر خزانہ اسحاق ڈار تیسری مرتبہ احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے جب کہ اس سے قبل وہ 25 اور 27 ستمبر کو پیش ہوئے تھے۔
اسحاق ڈار کی پیشی پر جوڈیشل کمپلیکس کے باہر وفاقی پولیس کے500 اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔
ایس ایس پی سیکورٹی جمیل ہاشمی کے مطابق پولیس سیکورٹی فراہم کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہےتاہم رینجرز کو پہلے طلب کیا تھا نہ اب کریں گے۔
احتساب عدالت نے گزشتہ سماعت پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تاہم انہوں نے فرد جرم کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اپنے خلاف ٹرائل روکنے کی بھی استدعا کی۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اسحاق ڈار کی احتساب عدالت میں ٹرائل روکنے اور فرد جرم کی کارروائی کو معطل کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
واضح رہے کہ نیب نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے کی روشنی میں شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنسز دائر کیے ہیں اور اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس ہے۔