جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 29/ اکتوبر 2007 کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ ترقی پانے سے پہلے وہ ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشینز او ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہ چکے ہیں۔ وہ ایک خاموش طبع انسان ہیں اور مشرف کی طرح انہیں میڈیا میں جانے کا شوق نہیں۔
نیوز ویک میگزین نے ان کو دنیا کی بیسویس طاقتور شخصیت قرار دیا اور پھر 2009ء میں ان کو 17 ویں پوزیشن دی گئی۔ اس کے پیچھے ان کا وہ کردار ہے جو انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ادا کیا۔ عام خیال یہی تھا کہ چونکہ جنرل پرویز مشرف نے ان کو منتخب کیا ہے اس لئے ہو سکتا ہے وہ بھی وہی کریں جو وہ کرتے تھے۔ کچھ حلقوں کی جانب سے انہیں سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کے پاؤں نہیں ڈگمگائے پھر راولپنڈی میں تمام کورکمانڈرز کی موجودگی میں انہوں نے یہ کہا کہ فوج جمہوری عمل میں حکومت کے ساتھ ہے اور اپنا آئینی رول ادا کرے گی۔
جب سے عام انتخابات ہوئے ہیں پاکستان مشکل حالات سے دوچار ہے سابق صدر جنرل مشرف جب گئے تو ہر طرف آگ ہی آگ لگی ہوئی تھی انہوں نے امریکہ سے ایک سمجھوتہ کیا ہوا تھا جس سے جان چھڑانی مشکل تھی آج ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے انہی کا بویا ہوا ہم کاٹ رہے ہیں۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایک مشکل وقت میں کمان سنبھالی جب سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں حکومت پاکستان کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ حکومت نے عسکریت پسندوں کو بات چیت کے ذریعے راہ راست پر لانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس کو حکومت کی کمزوری سمجھا۔ اب حکومت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ طاقت کا استعمال کرے لہٰذا حکومت نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ کی بحالی کا کام سونپا۔ انہوں نے آپریشن راہ راست کا آغاز کیا اور وادی سوات سے طالبان کو نکال باہر کیا اس کے نتیجے میں بے شمار فوجی اور مقامی لوگوں کو بھی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا مگر آج یہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں چونکہ افغانستان سے بارڈر کھلا ہوا ہے اس لئے ایک بار پھر وہ منظم ہوئے اور جنوبی وزیرستان میں انہوں نے کارروائیوں کا آغاز کیا جس پر ایک دفعہ پھر فوج کو آپریشن راہ نجات کرنا پڑا۔ آج بیشتر علاقہ فوج کے قبضہ میں واپس آچکا ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جب سے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا ہے پاکستان مسلسل حالت جنگ میں ہے بڑے شہروں میں خود کش حملے اور بے گناہوں کا قتل، امن و امان کی بگڑتی ہوئی حالت اور وقفے وقفے سے عسکریت پسندوں کی طرف سے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ حالات نارمل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔
پاکستان کواس وقت ایک طرف افغانستان سے عسکریت پسندوں کی آمد اوربھارت کی طرف سے را کی کارروائیوں اور دوسری طرف امریکہ کی طرف سے ڈومور کے مطالبے کا سامنا ہے ۔ امریکہ کا اصرار ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہے اوپر سے جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیلئے دباؤ، وقفے وقفے سے خود کش حملے اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے فوج کی قیادت اس کے پاس ہونی چاہئے جس نے قوم کے لئے کچھ کرکے دکھایا ہے تو ہماری نظر پھر جنرل اشفاق پرویز کیانی پر جاتی ہے۔
آج کل ان کے عہدے میں توسیع موضوع بحث ہے اس پر دو آراء ہیں لیکن یہ رائے وزن رکھتی ہے کہ پاکستان کو جن خطرات کا سامنا ہے اس کے لئے ضروری تھا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت میں توسیع کی جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ایک ایسے موقع پر جب کہ حالات نازک موڑ پر پہنچ چکے ہیں تو تسلسل برقرار رہنا چاہئے سب سے پہلے توسیع کی بات یو ایس سینٹرل کمانڈر نے کی تھی کہ جنرل کیانی کو توسیع ملنی چاہئے۔ یہی سوچ کر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ توسیع کوئی اچھی بات نہیں وہ بھی ایک ایسے ادارہ کے سربراہ کی جو آرمی کی کمان کر رہا ہو کسی ایک شخص پر ادارہ منحصر نہیں ہوتا۔ ان کی توسیع کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ وہ دوسرا ان کی جگہ نہیں لے سکتا بلکہ یہ حالات کا تقاضا ہے۔
میری ناقص رائے میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے کسی کا کوئی نقصان نہیں لیکن اس پر جو تنقید ہو رہی ہے وہ زیادہ نقصان دہ ہے۔اس وقت ملک میں ایک جمہوری حکومت ہے اور وزیر اعظم کو اختیار ہے کہ وہ کسی کی بھی ملازمت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے جنہوں نے توسیع دی ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی دی ہے۔ اس لئے ان پر تنقید بلا جواز ہے۔ تاہم میں اس حوالے سے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں جس طرح سے ان کی توسیع کا اعلان کیا گیا وہ نامناسب تھا، آخر اتنی جلدی کیا تھی کہ رات کو 11-00 بجے اس کا اعلان ضروری سمجھا ۔ یہ اعلان کا طریقہ کار ہی تھی جس کی وجہ سے ان پر تنقید ہو رہی ہے ہم امید کرتے ہیں کہ قومی فیصلے کرتے وقت آئندہ اس طرح کے رات گئے اعلانات سے اجتناب برتا جائے گا تاکہ تنقید سے بچا جا سکے۔