• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 شاید مریم صفدر صاحبہ سچی مچی کی سیاستدان بن ہی جائیں۔ اس مرتبہ انہوں نے نیب کورٹ میں پیشی پر حاضری سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پوری قوم کی احتسابی عمل میں اختیار کی گئی اپروچ کہ دیکھیں ہمارا نظام عدل کیسے کام کررہا ہے؟ میں خود بھی شریک ہوگئی ہیں۔ انہوں نےمزیدکہا’’عدالت میں پیش ہو کر نظام عدل آزمائیں گے‘‘۔ پوری قوم تو اس میں پہلے ہی شریک ہے، نہ ہوتی تو یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ تیسری مرتبہ بننے والے وزیر اعظم تیسرے دور کے آخری سال میں قانون کی عدالت سے نااہل ہو کر لندن چلے جاتے۔ اب صاحبزادی کا اختیار کیا صراط مستقیم اختیار کرتے ہوئے انہوں نے بھی ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنے ملک، جس کے وہ تین مرتبہ وزیر اعظم بنے، کے نظام عدل کو آزمانے کے لئے تیار ہیں۔ اللہ ان کی محترمہ بیگم کو صحت کاملہ عطا فرمائے (آمین) اور انہیں جلد اہل بنائے کہ وہ بھی صاحبزادی کی طرح ملکی نظام عدل کو آزمائیں کہ یہ کیسے کام کررہا ہے۔ ان کے اور الزامات کی زد میں آئے ان کی دیگر اہلخانہ کے یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قطع نظر اس کے کہ ملکی آئینی و قانونی عمل سے گزر کر وہ جو بھی انصاف پائیں گے بریت یا سزا، وہ اس لحاظ سے تاریخ میں یاد رکھیں جائیں گے کہ اس سیاسی حکمران خاندان نے اپنے دور اقتدار میں ہی اور سیاست کی عروج پر خود کو حوالہ نظام (عدل) کیا۔ اس کی اپنی شان ہے۔ غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں؟ اور اتنی چمک دمک اقتدار و اختیار، مال و دولت، صبح شام خوشامدی، خوشامد اور تائید و توصیف سے کانوں میں رس گھولتے رہیں۔ سب سے بڑھ کر عوام کے ایک قابل ذکر حصے کی سادگی اور محرومیاں، سیاسی سماجی پسماندگی میں ڈھل گئی ہوں، جن وفاداروں کو سب اچھا نہ ہونے کا ہوش ہے، وہ بھی اپنی جائز و ناجائز حاصل آسودگی میں اتنے خود غرض ہوجائیں کہ انصاف و قانون کے پھندوں کی طرف بڑھتے حکمرانوں کو جن کی نظر دور دور ان پر نہیں پڑتی، نہ صرف اس طرف بڑھنے سے روکیں بلکہ واہ واہ کے شور میں کڑوے سچ کو کڑواقرار دیکر تنقید برائے تنقید سمجھاتے ہوئے شاہ کو اندھیرے میں رکھیں تو ایسے میں صراط مستقیم سے بھٹکنے کا ساماں تو ہو جاتا ہے۔ کمیشن جائز اور حق معلوم دیتے ہیں۔ ترقیاتی پروجیکٹس فقط اپنی ذہانت کا شکار معلوم دیتے ہیں خواہ محدود بینی فشری بھی ان کے ناقد ہوں یا پھر ان کے مطالبات، خواہشات اور ضروریات میں یہ (ترقیاتی پروجیکٹس) دور دور شامل نہ ہوں لیکن حاکم یہ ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جو ’’تاج محل) بنا رہے ہیں وہ کل عوام سے ان کی محبت کا شاہکار ہے، حالانکہ عوام الناس میں شکوک جنم لیتے ہیں کہ یہ عوام سے محبت کا شاہکار ہیں یا مزید دولت سے محبت نبھانے کا فن۔
یاد آیا کہ جناب شہباز شریف نے شہر وفا کے باسیوں سے اپنی ایسی ہی محبت کا شاہکار اورنج ٹرین کے نام کوئی بڑے پیچیدہ سے قرضے سمجھوتے کرکے کسی چینی بینک سے ڈیل ویل کرکے تیار کیا ہے، ابھی یہ مکمل نہیں ہوا لیکن اس کا افتتاح کرتے ہوئے ہم جیسے دل جلوں کے دل پر یہ کہہ کر پھر تیر چلایا ہے کہ ’’خونی انقلاب روکنے کے لئے عوامی مفاد کے منصوبے تیزی سے مکمل کرنا ہوں گے‘‘۔
شہباز صاحب کی پرواز بھی شہباز کی طرح تیز تر ہے اور وہ ہر دم پارے (مرکری ) کی طرح حرکت میں رہتے ہیں۔اس سے بڑھ کر کیا تیزی ہو گی کہ ابھی متنازع اورنج ٹرین کا منصوبہ مکمل بھی نہیں ہوا،لیکن اس کا افتتاح ہو گیا، رہا ہمارا اور ہم جیسے کتنے ہی دل جلوں کا دل یوں جلایا کہ ہم اسے (اورنج ٹرین ) کو عدل مانتے ہیں ناانصاف، ہم اسے پورے پنجاب میں پینے کے صاف پانی سے محرروم کروڑوں غربا، اتنے ہی اپنے گلی محلوں کی صفائی ستھرائی سے محروم ہیں، اضلاعی اور چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار کے مقابل ناانصافی اور ان کے حقوق کو غصب کرنے کے مترادف جانتے ہیں جس بھاری رقم سے چائلڈ لیبر کنٹرول کرکے بچوں کو داخل سکول کرنا تھا ڈھائی کروڑ کے ڈھائی کروڑ ہی ہیں، اورنج ٹرین کے 27کلو میٹر پر جدید و رنگین ٹرین کے مقابل ہم اسے ہی عدل جانتے ہیں۔اسے ہی انصاف سمجھتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ متذکرہ سلگتے عوامی مسائل کے تسلسل اور ان کے مسلسل بڑھنے پر کہیں ہم پاکستانیوں جیسے جامد و بےحس بھی خونی انقلاب نہ برپا کردیں۔
اور یاد آیا، جب ادھوری اورنج ٹرین سے خونی انقلاب کے دھڑکے کو ختم کرنے کی تگ و دو میں لگے جناب شہباز شریف نے شہر وفا میں ہی میٹرو بس کا افتتاح کیا تھا، تو انہو ںنے میڈیا والوں کے ساتھ اس میں بیٹھ کر سفر بھی کیا تھا۔ انہیں یاد دلاتا ہوں (فوٹیج موجود) کہ شہباز صاحب کے ساتھ بیٹھے حامد میر نے ساتھ سیٹ پر بیٹھے ایک ان پڑھ عمر رسیدہ ہم سفر سے پوچھا کہ بابا جی معلوم ہے آپ کو یہ کون ہیں؟ تو بابا جی بولے کہ پتہ نہیں۔ حامد نے کہا یہ شہباز شریف ہیں۔ بابا جی بولے ہووے گا، پھر جب شہباز صاحب نے پوچھا ’’باباجی! آپ کو یہ بس کیسی لگی‘‘ تو کروڑوں کی طرح بنیادی سہولتوں سے محروم بابا راز داں بولا ’’انصاف نہیں ہے‘‘ نہ جانے شہباز صاحب نے یہ سبق کیوں نہ پڑھا۔
ہاں! اوریاد آیا جناب نواز شریف جب پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے عوام دشمن تھانہ کچہری ’’سسٹم‘‘ کے خاتمے کے لئے تو کچھ نہ کیا، البتہ لاہور میں ایک کھلی کچہری لگانا شروع کردی جس میں وہ عام لوگوں کی شکایات سنتے تھے اور ان کے مداوے کے فوری احکامات دیتے۔ یہ بڑے بھلے دن تھے یوں کہ دہشت گردی یاسیکورٹی جیسے خطرات کا نام و نشان نہ تھا اور لاہوریوں کو جناب میاں صاحب کا ہفتہ وار دیدار تو ہوجاتا تھا۔
اب تو ساڑھے چار سال میں ن لیگی منتخب نمائندے بالمشافہ ملاقات تو دور، آواز سننے کو بھی ترس گئے۔ اللہ معاف کرے! نہ جانے ہم دل جلوں کی زبان کڑوی ہے یا کالی، میں نے اس وقت بھی’’زور قلم‘‘(کالم کا نام یہی تھا) میں نے اس کھلی کچہری کو’’بندذہن کی کھلی کچہری‘‘ قرار دیا تھا کیونکہ عدل و انصاف سے یکسر محروم میاں صاحب کا ایک متوالا جس نے اپنے گھروندے سے گھر میں میاں صاحب کی تصویر بھی آویزاں کی ہوئی تھی، کھلی کچہری کے سامنے آکر تیل چھڑک کر جل مرا تھا۔نام اس غریب کا تھا چن زیب۔ہم نے اس کھلی کچہری کو ’’بند ذہن کی کھلی کچہری‘‘ یوں قرار دیا تھا کہ چن زیب تو میاں صاحب کے سامنے جل مرنے لاہور پہنچ گیا تھا، لیکن ملک بھر میں میاں صاحب کے لاکھوں متوالوں کے لئے ان کی حالت زار نے لاہور پہنچنے کے راستے بھی بند کئے ہوئے تھے۔ پوری قوم کی بدنصیبی ہے کہ تھانہ کچہری کا یہ نظام جو گھر گھر فرد فرد کو احساس دلارہا ہے کہ ملک میں انصاف نہیں ہے عدل نہیں ہے آج بھی سر چڑھا ہوا ہے۔ اب کچھ اوپر کی عدالتوں نے رنگ دکھایا ہے تو’’عوامی عدالتیں‘‘ مقابلے میں آگئی ہیں۔کون کافر چاہتا ہے کہ مریم بی بی اور ہماری محبت و سکون کا مرکز و محور ہماری بیٹیاں، بہوئیں تھانے کچہریوں کی پیشیاں بھگتیں۔ یہ اذیت اور دکھ فقط اس لئے ہضم ہورہا ہے کہ یہ پاک سرزمین ناانصافیوں سے اٹی جارہی ہے۔ تبھی تو مریم کو کہنا پڑا کہ ہم آزمائیں گے کہ ہمارا نظام عدل کیساہے، اللہ پاکستان اور پاکستانیوں کا حامی و ناصر ہو۔(آمین)

تازہ ترین