سابق وزیر ِاعظم پاکستان ، نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر نے اسمبلی میں ایک دھماکہ کردیا ہے ۔ اچانک، بظاہر کسی اشتعال کے بغیر اُنھوںنے غیرمسلم احمدی برداری کی طرف سے ’’قومی سلامتی کو لاحق خطرے ‘‘ کا شوشا چھوڑدیا ۔ انھوں نے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔’’یہ لوگ (احمدی)ملک ، اس کے آئین اور نظریے کے لئے ایک خطرہ ہیں۔ یہ صورت ِحال ایک خطرناک نقطے کی طرف بڑھ رہی ہے ۔‘‘اُن کا کہنا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ مسلح افواج میں احمدیوں کی بھرتی کو ممنوع قرار دیا جائے کیونکہ ’’ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ضمن میں اُن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘
اس موضوع پر گرجتے ہوئے اُنھوں نے قائد ِاعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے فزکس سینٹر کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسو ب کرنے کے فیصلے پر بھی کڑی تنقید کی۔ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ، ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے (وزیر ِاعظم)نواز شریف نے منسوب کردہ شعبہ فزکس کی طرف سے سالانہ پانچ پی ایچ ڈی فیلو شپ کی مالی معاونت کا بھی اعلان کیا تھا۔ کیپٹن صفدرسیاسی ہنگامہ بپا کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، لیکن اس موقع پر اُنھوں نے جو کچھ کہااُس دیوانگی میں کچھ ہوش کا پہلو بھی دکھائی دیتا ہے۔ اُن کی اسمبلی میں کی گئی شعلہ بیانی کے موضوع اور ٹائمنگ کا تعلق کچھ ایشوز سے ضرور نکلتا ہے ۔ جذبات کی جولانی کو بے ساختہ اشتعال نہیں قرار دیا جاسکتا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی کا تعلق کچھ حقائق سے ہے ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب گورنر پنجاب ، سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دی جانی تھی تو یہ سوال کھڑا ہوا تھا کہ کس نے شریف حکومت کو قادری کی رحم کی اپیل مسترد کرنے اور پھانسی دینے کا کہا ہے ۔ کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ یہ اُس وقت کے آرمی چیف تھے جو آستین چڑھا کر ،پوری استقامت سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا صفایا کررہے تھے ۔ کچھ دیگر حلقوں کا خیال ہے کہ یہ نواز شریف نے عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ملک اوربیرونی دنیا کے لبرل حلقوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی ، حالانکہ اپنے سیاسی کیرئیرکے دوران اُنھوںنے بہت سے انتہا پسندوں کے ساتھ شفقت بھرا سلوک کیا تھا ، اور ان کے ساتھ معاہدے بھی کیے تاکہ وہ اُن کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ حتی کہ اُس وقت بھی کیپٹن صفدر نے ممتاز قادری کے لئے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بریلوی طبقے کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ شاید اُن کے سسر جنرل راحیل شریف کے دبائو کے سامنے لاچار ہیں۔
جب قادری کی پہلی برسی منائی گئی تو شریف حکومت راولپنڈی میں ہجوم کو کنٹرول کرتے ہوئے امن و امان قائم رکھنے کی بجائے ایک قدم پیچھے ہٹ گئی تاکہ اس طبقے کی ناراضی مول نہ لے ۔ ان حالات میں بریلویوں نے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی اور این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں نواز شریف کو ملنے والے دائیں بازو کے ووٹ بنک کا ایک حصہ لے اُڑے ۔ ممتاز قادری کے حامی ، ایک سابق فوجی نے نوازشریف کو قتل کرنے کی کھلم کھلا دھمکی دی ۔ ان حالات میں نواز شریف کے کسی قریبی کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ بریلوی جذبات کے ساتھ کھل کر اپنی یک جہتی کا اظہار کرے ۔
دوسری بات یہ کہ نوازشریف اپنے ہی چُنے گئے آرمی چیف سے الجھنے کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ جنرل مشرف نے اُن کا تختہ الٹا او ر اُنہیں جلاوطن کردیا۔ چنانچہ اقتدار میں آنے پر اُنھوں نے مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کردیا ۔ جنرل راحیل شریف نے عمران خان کے دھرنے کی پشت پناہی کی ۔ اس پر نواز شریف نے اچھے جنرل کو سعودی عرب روانہ کرکے اور پھر اُن کے ’’زمین پر قبضے ‘‘ کی افواہ پھیلا کر اُن کی شرمندگی کا سامان کیا ۔ اب وہ ایسا تاثر رکھتے ہیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے اہم افسران نہ صرف اُن کی پارلیمنٹ سے نااہلی میں ملوث ہیں بلکہ وہ دیگر ریاستی اداروں پر دبائو ڈال کر اُن کا سیاسی خاتمہ چاہتے ہیں۔
تو کیا کیپٹن صفدر کی نیت یہ تھی کہ ان ذمہ داران کے احمدی برادری کے ساتھ مبینہ تعلقات کی جانب اشارہ کر کے انہیں دفاعی پوزیشن پر کھڑا کیا جائے؟یقینی طور پر پارلیمنٹ میں احمدیوں پر پابندیوں اور انہیں نوکریوں سے برخاست کرنے کی قرارداد لانے کا خیال کچھ ایسے ہی امکان کی جانب اشارہ ہے۔اگر ایسی صورت حال ہے تو کیپٹن صفدر کوآگ سے نہ کھیلنے کا مشورہ ہی دیا جاسکتا ہے۔پرویز مشرف کا ٹرائل کر کے نواز شریف بحیثیت ادارہ فوج کے ساتھ تنائوپیدا کر چکے ہیں ۔یہ خلیج گہری اس وقت ہوئی جب انہوں نے راحیل شریف کا سرکاری ’’لالچ‘‘ ظاہر کر کے انہیںخفت سے دوچار کیا ۔اب کیپٹن صفدر نے اسٹیبلشمنٹ کے اہم افسران کو ان کے ادارے سے علیحدہ کرنے کی کوشش میں ان کے دل میں ذاتی انتقام کے بیج بو دئیے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کیپٹن کم از کم ان دو افسران کی قسمت کو بھول گئے ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم ترین افسر کے ذمہ داریاں سنبھالنےکے موقع پر ’’احمدیوں سے تعلقات‘‘ کی سازش کی تھی۔
سیاست ایسا خطرناک موڑ مڑ رہی ہے جس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ایک طرف اسٹیبلشمنٹ آہستہ آہستہ کھلے طور پر اپنی پالیسیاں واضح کر رہی ہے،اپنی امنگوں کو بڑھا رہی ہے اور دھمکیاں دینے میں مصروف ہے۔دوسری طرف سویلین حکومت سیاسی تبدیلوں، اقتدار کی چھینا جھپٹی ،معاشی بحران ،کرپشن اور بد ا نتظامی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔اس افراتفری کے عین بیچ میںفیصلہ ساز ادارے نے اپنے پر پھیلا رکھے ہیں اور کسی انتقامی پرندے کے مانند اپنے پنجے لہرا رہا ہے۔طاقتوںکا یہ جھرمٹ کسی اچھے نتیجے کا پیش خیمہ نہیں ۔