ہر ذی نفس کو ایک نہ ایک دن اپنے اللہ کی طرف پلٹ کے جانا ہے۔ وہ بھی چلاگیا لیکن کیا بخت لے کے آیا تھا کہ ایک عالم رشک کرتا رہے گا۔
راولپنڈی سے سرگودھا جاتے ہوئے چکوال سے کوئی چالیس کلومیٹر دور سطح مرتفع کا وہ علاقہ ہے جسے ”علاقہ ونہار“ کہا جاتا ہے۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے جب اس سرسبز و شاداب علاقے پر نگاہ ڈالی تو اس کے منہ سے نکلا۔ ” ونہار بچہ کشمیر است“ ونہار کا یہ تمغہ امتیاز آج بھی تزک بابری کا حصہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں خاصے ہندو آباد تھے جو معاشی طور پر مسلمانوں سے کہیں زیادہ آسودہ حال تھے۔ ستائیس دیہات پر مشتمل اس علاقے کا بڑا قصبہ بوچھال کلاں تھا۔ بوچھال کلاں کے شمال میں تین چار کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے ”میانی“ اور یہ کہانی اسی میانی کے ایک خوش بخت شخص کی ہے۔
میانی میں مسلمان غالب اکثریت میں تھے۔ ہندوؤں کی آبادی صرف ایک چوتھائی تھی لیکن گاؤں کی ساری دکانیں انہی کی تھی اور مسلمان سود در سود قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ لالہ جوالا سہائے کا شمار میانی کی انتہائی بااثر ہندو شخصیات میں ہوتا تھا۔ ان کے تین بنیوں میں سے ایک کا نام لالہ بھیم سین تھا جو کشمیر میں لکڑی سپلائی کرنے والی ایک بڑی کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا گھر میانی کا نہایت ہی خوشحال گھر تھا۔ لالہ بھیم سین کے ہاں یکے بعد دیگرے چار بچے پیدا ہوئے جو نوعمری ہی میں فوت ہوگئے۔ بڑی منتوں کے بعد جون 1924ء میں ان کے ہاں ایک بیٹے نے جنم لیا۔ ایک پنڈت کی ہدایت پر بچے کا نام کرشن لعل رکھا گیا۔
کرشن لعل میانی کے اسکول میں دو جماعتیں پڑھنے کے بعد مڈل اسکول بوچھال کلاں میں داخل ہوگیا۔ بیس بائیس طلباء میں ہندو بچوں کی تعداد صرف چار تھی۔ کرشن لعل کا تعلق کٹر مذہبی گھرانے سے تھا۔ مسلمان بچوں سے بات چلتی تو وہ کم ہی مات کھاتا لیکن اس کے دل کے اندر نامعلوم سی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی۔ وہ ساتویں جماعت میں تھا کہ ایک مسلمان دوست نے اسے مولانا عبیداللہ مالیر کوٹلوی کی کتاب تحفتہ الہند پڑھنے کو دی۔ کتاب پڑھ کر اندر کی ٹوٹ پھوٹ زلزلے میں بدل گئی اور کرشن لعل خوفزدہ سا ہو کر ہندو دھرم کی آغوش میں سمٹ گیا۔ ماں باپ حیران اور خوش ہوئے کہ بیٹا اتنی شدت کے ساتھ مذہبی ہوگیا ہے۔ لیکن اندر کا جوار بھاٹا ختم نہ ہوا۔ مسلمان بچوں سے اس نے شب برات کا ذکر سنا تو رات بھر جاگ کر روشنی اور درختوں کے سربسجود ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ اگلے دن اس نے شب بیداری کی روداد اپنے ساتھی ریشم خان کو سنائی۔ جب کرشن لعل کا تجسس بڑھنے لگا تو ایک دن ریشم خان اسے ایک نیک اور بزرگ شخصیت مولانا عبدالرؤف کے پاس لے گیا۔ مولانا نے کرشن لعل سے کچھ باتیں کیں اور کہا۔ ” میں تمہیں اپنا مذہب چھوڑنے کے لئے نہیں کہوں گا البتہ یہ دعا مانگتے رہو کہ اے اس عالم کے پروردگار مجھے سیدھا راستہ دکھادے۔“
یہ دعا کرشن لعل کا وظیفہ بن گئی۔ اور یہ فروری 1938ء کی ایک سرد رات تھی جب کرشن لعل کے لئے خوش بختی کا نورانی دریچہ آپ ہی آپ وا ہوگیا۔ وہ معمول کی دعا مانگ کر سوگیا۔ پھر اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے دوست لال خان کے ساتھ حج کو جارہا ہے۔ اچانک ایک ہندو سادھو راستے میں ملا جو دونوں لڑکوں بھٹکا کر سانپوں ، بچھوؤں اور درندوں سے بھرے جنگل کی طرف لے گیا۔ خواب ہی میں دونوں بھاگتے ہوئے گاؤں پہنچے۔ لال خان گھر چلا گیا۔ کرشن لعل گھر میں داخل ہورہا تھا۔ ایک اور دوست محمد صادق اسے مل گیا۔ محمد صادق نے بتایا کہ وہ حج کرنے جارہا ہے۔ کرشن لعل بولا۔ ”ارادہ تو میرا بھی ہے لیکن صبح روشنی ہوگی تو چلوں گا۔“ محمد صادق کے حوصلہ دینے پر وہ بھی چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ حرم کعبہ میں داخل ہوگئے۔ حرم کے چار سو ایک ریتیلا میدان تھا۔ دونوں بچوں نے دیکھا کہ لاتعداد صحابہ کر ام اجلا شفاف لباس پہنے ادب سے بیٹھے ہیں۔ خانہ کعبہ کی دیوار سے پشت لگائے سرور کونین حضور اکرم تشریف فرما ہیں۔ دونو ں چلتے چلتے حضور کے قریب جاپہنچے۔ محمد صادق نے ہاتھ بڑھایا حضور نے بیٹھے بیٹھے مصافحہ کیا۔ کرشن لعل ڈرتے ڈرتے آگے بڑھا تو سرکار اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے کرشن لعل کو گلے لگالیا اور اپنے پاس بٹھاتے ہوئے بولے۔ ”کیسے آئے ہو؟“ کرشن لعل بولا۔ ”مسلمان ہونے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔“ حضور نے کرشن لعل کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ کچھ دیر تک آپ پڑھتے رہے اور پھر فرمایا۔ ”جاؤ! اب تم مسلمان ہو۔“ کچھ ہی دنوں بعد اسے ایک بار پھر خواب میں حضور کی زیارت ہوئی جب آپ کرشن لعل کی مدد کو آئے۔
دوسرے خواب کے فوراً بعد کرشن لعل مولانا عبدالرؤف کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد کی کہانی آلام و مصائب اور مشکلات کی ایسی داستان ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بااثر ہندو خاندان نے ہر حربہ استعمال کیا لیکن کرشن لعل اب غازی احمد بن چکا تھا۔ اسے یہ شرف حاصل ہوا تھا کہ آنحضرت نے اپنے دست مبارک پر اس سے بیعت لی تھی۔ نوعمر غازی احمد ایک فولادی چٹان کی طرح ڈٹ گیا۔ اس نے دین کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ دنیوی تعلیم سے آراستہ ہوا۔ دارالعلوم دیوبند سے کسب فیض کیا۔ عربی زبان میں ایم اے کیا۔ گورنمنٹ کالج بوچھال کلاں میں پروفیسر ہوئے۔ حج و عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ علاقے کی مختلف مساجد میں خطیب رہے۔ قرآن و حدیث کے درس میں ایک عرصہ گزارا۔ مئی 1982ء میں گورنمنٹ کالج بوچھال کلاں کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوگئے۔ اس رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ جاری تھا کہ 25/ اگست کو مجھے اپنے سیل فون پر ڈاکٹر طاہر جمیل کا ایک مختصر سا پیغام ملا۔ ”آج صبح سات بج کر پچاس منٹ پر میرے والد گرامی غازی احمد انتقال فرماگئے۔ ان کی نماز جنازہ آج شام ڈھائی بجے میانی میں میری رہائش گاہ پر ادا کی جائے گی۔“
اللہ اس مرد درویش کے درجات بلند فرمائے۔ مجھے غازی احمد مرحوم سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ کیا عشق رسول میں گندھا شخص تھا۔ سائیکل پر گھر سے کالج پڑھانے جاتے، جس مقام پر حضور رسالتمآب کو خواب میں دیکھا تھا ، عمر بھر وہاں سائیکل سے اتر کر پیدل چلتے اور درود پڑھتے ہوئے گزرتے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ بخت آوری کا وہ نورانی دریچہ کیونکر کھلتا ہے جو کسی کرشن لال کو غازی احمد بنادیتا ہے۔