معلوم نہیں کس نے کہا تھا مگر بالکل صحیح کہا تھاکہ موثر ترین اسلام دشمنی اسلامی لبادے میں ہی ہوسکتی ہے اور وطن دشمنی کے لئے حب الوطنی کا بہروپ اپنانا سب سے زیادہ نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔ واصف علی واصف# مرحوم نے بھی شاید اسی سوچ کے تحت اللہ میاں سے دعا مانگی تھی کہ وہ اسلام کو مسلمانوں سے محفوظ رکھے اور میرے دل سے یہ دعا اُبھری تھی کہ پاکستان بھی محب الوطنوں سے محفوظ رہے۔
اس نوعیت کی مذہبی انتہا پسندی، تعصب او ر نام نہاد حب الوطنی کی وباہمارے پڑوسی سیکولر ملک ہندوستان میں بھی بھرپور انداز میں پھیلی ہوئی ہے جس کی زد میں ہندوستان کی فلمی صنعت کے نامور ہیرو سلمان خاں بھی آئے ہوئے ہیں جن کا گناہ، جرم یا قصور ہے کہ انہوں نے ایک پاکستانی ٹیلیویژن چینل سے باتیں کرتے ہوئے یہ حقیقت بیان کردی تھی کہ 26نومبر کو ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات سے فائیوسٹار ہوٹل کے اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے مسافر متاثر ہوئے تھے۔ اس واردات کوریلوے ٹرین کو لگائی جانے والی آگ میں جل مرنے والے سینکڑوں مسافروں اور غریب طبقے کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم سے بھی زیادہ اہمیت دی گئی جبکہ ان وارداتوں کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔
یہاں تک تو سلمان خاں کی باتیں قابل برداشت ہوسکتی تھیں مگر انہوں نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہہ دیا کہ ”ہندوستان کی سکیورٹی ناکام رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی دہشت گردی کی بہت سی وارداتیں ہوچکی ہیں۔ ان تمام وارداتوں کاذمہ دارپاکستان نہیں تھا۔ یہ ہماری اندر کی تحریکوں کی متشدد کارروائیاں تھیں‘۔‘ بال ٹھاکرے اور ان کی شیوسینا ہی نہیں دیگر بہت سے ہندوستانیوں نے بھی سلمان خاں کی اس بات کو ممبئی کی واردات سے پاکستان کی حکومت کو بری الذمہ قراردینے کی کوشش قرار دیا اور ہندوستان کی مصنفہ اورکالم نگار فرزانہ وارثی کے مطابق ہندوستان کے دہشت گردی کے خلاف فورس کے چیف ہیمنت کرکرے کی بیوہ نے کہا کہ سلمان خاں کویہ بات نہیں کرنی چاہئے تھی وہ اس معاملے میں کوئی مہارت نہیں رکھتے۔ سلمان خاں کے اس خیال سے کسی کوبھی ملک دشمنی کی بدبو نہیں آنی چاہئے تھی اور نہ ہی سلمان خاں کو ہندوستانی مسلمانوں کے خیالات کا ترجمان سمجھنا چاہئے۔
فرزانہ وارثی کا یہ اعترا ض بے بنیاد ہے کہ ممبئی کی دہشت گردی کی واردات کے بارے میں صرف فلم انڈسٹری کے مسلمان اداکاروں سے ہی کیوں پوچھا جائے۔ اکشے کمار اور ایشوریا رائے سے کیوں نہ پوچھا جائے اور اگر اس کے ردعمل میں شیوسینا کو انڈین ٹی وی کے پروگرام ”بگ باس“ میں ویناملک کی شمولیت اور دیگر ٹی وی پروگراموں میں وسیم اکرم اور راحت فتح علی خان کی شرکت پر اعتراض ہوگا تو پریشانی نہیں ہونی چاہئے ویسے سیکولر ازم سے زیادہ کمرشل ازم کی اہمیت کے پیش نظر کمرشل پروگراموں میں پاکستانی فنکاروں کو بیچنے پر بال ٹھاکرے کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
ہندوستان کے نام نہاد محب وطن عناصر کو نندیتا داس کی پہلی ذاتی فلام ”فراق“ پرکچھ زیادہ اعتراض نہیں ہوا جس کاموضوع ہندوستانی صوبہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہے۔ اس فلم نے کارا کے عالمی فلمی میلے سے بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کیا اور نندیتا داس نے ایک بیان میں کہا کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے میڈیاکے ذریعے پاکستان کے خلاف مسلسل اور متواتر حملے ہوتے رہتے ہیں جو بہت حد تک ناجائز اورناواجب ہوتے ہیں۔ پاکستان کا دانش مند طبقہ قصاب سے کسی قسم کی ہمدردی نہیں رکھتا بلکہ
اسے قصائی قراردیتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ جو لوگ سلمان خاں کے خیالات کو ہضم نہیں کرسکتے وہ نندیتا داس کو کیسے برداشت کرگئے؟
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی اداکار اور گلوکار علی ظفر بتاتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں نقل مکانی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”میرا پہلا گھر لاہور میں ہے مگر میں ممبئی میں اپنا دوسرا گھر بنانا چاہتا ہوں۔ میرے خیال میں گلوکاروں اور دیگر فنکاروں کو سیاست سے ماورا یا بالاتر ہونا چاہئے۔“ فرزانہ کے خیال میں سلمان خاں کی فلم ”دبنگ“ پر عارضی طور پر پابندی عائد ہوسکتی ہے جس سے ان کی فلم کی قدر وقیمت بڑھ جائے گی اور وہ ”منا ہو گیا بدنام“ کے عنوان سے شہیدوں سے بھی زیادہ شہرت کمالیں گے۔
برصغیر پاک و ہند کے دو دو گھر بنانے کی خواہش رکھنے والے فنکاروں اور گلوکاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے ملکوں میں ایسے بدنصیبوں کی اکثریت ہے جن کو ایک گھر کی چھت بھی نصیب نہیں ہے اور اس بدنصیبی کے پیچھے مذہبی انتہاپسندی، تعصب او ر نام نہادحب الوطنی کام کر رہی ہے۔ سلمان خان نے جو خیال ممبئی کی دہشت گردی کی واردات کے حوالے سے ظاہر کیاہے وہ خیال ہمیں عملی طور پر اپنے طبقاتی امتیازات میں لتھڑے ہوئے پورے ہندوستانی اورپاکستانی معاشروں میں دکھائی دیتا ہے جب سڑک سے لڑھک کر نہر میں گر جانے والی بس میں لقمہ ٴ اجل بن جانے والوں کی پوری تعداد بھی نہیں بتائی جاتی اور طیارے کے مسافروں کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی تفصیلات اورتصاویرکی اشاعت بہت دنوں تک جاری رہتی ہے۔فائیو سٹار ہوٹلوں کے امیر طبقے کے مسافروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے سامنے طوفانی بارش میں لڑھک جانے والے زمین کے تودے میں زندہ دفن ہوجانے والے سینکڑوں غریبوں کی کیا حیثیت اوراہمیت ہوسکتی ہے جن کے بارے میں فیض احمد فیض# نے کہا تھا کہ :
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا