• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تازہ خبروں کا ہجوم خصوصی تحریر…سلیم یزدانی

saleem.yazdani@janggroup.com.pk
ہمارے ملک میں حدود سے تجاوز کرنے کی بیماری تقریباً ہر ادارے میں ہے، اگر ادارے اپنے اپنے حدود میں رہتےہوئے فرائض ادا کریں تو مسائل پیدا نہ ہوں سیاستدانوں میں بڑی خرابی ہے یہ ہے کہ وہ ایشو جو انہیں پارلیمنٹ میں لے جاکر حل کرنا یا کرانا چاہئے عدالت میں لیجاتے ہیں اور جو فیصلہ عدالت میں ہونا ہوتا ہے اسے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر حل کرتے ہیں یا قومی اسمبلی سے باہر کرتے ہیں۔ عدالت نے سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا تو انہوں نے پارلیمنٹ میں بل پاس کراکے عدلیہ کے فیصلے کو بے اثر بناتے ہوئے اپنے آپ کو (ن) لیگ کا صدر منتخب کرالیا۔ ماضی میں یہ ہوا ہے کہ عدلیہ نےجو فیصلہ دیا۔ ایک وکیل نے اسے اس کے سامنے کھڑے ہو کر پرزہ پرزہ کردیا۔ عدالت اور ججوں کے خلاف دھواں دھار تقریر کی۔ عدلیہ قانون سازی نہیں کرسکتی لیکن آئینی تقاضوں کو دیکھتے ہوئے قانون کو معطل کرسکتی ہے۔ پاکستان کی اندرونی سلامتی بھی غیرمستحکم ہے اور بیرونی اعتبار سے چاروں طرف سے دبائو میں ہے۔ مشرقی سرحدوں پر بھارت دبائو کی کیفیت پیدا کررہا ہے افغانستان سے دہشت گرد حملہ کرتے رہتے ہیں ۔ ملک کے بیرونی اور اندرونی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پورے پاکستان میں ایک انتشار اور خلفشار کی کیفیت ہے۔ سابق صدر زرداری کا مطالبہ ہے کہ معاشی ایمرجنسی کا نفاذ ضروری ہوگیا ہے وہ اسحٰق ڈار کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کررہے ہیں آخر میں جیت PPPہی کی ہوئی ہے۔ میرے خیال میں وفاق میں مخلوط حکومت ہی بنے گی۔ سیاست دانوں مے متضاد بیانوںسے عوام پریشان ہیں۔ تضاد بیانی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، الزام تراشی اور بری زبان استعمال کرنے کا یہ دور اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے سے شروع ہوا اور جب پاناما پیپرز کا اسکینڈل سامنے آیا تو سیاست میں ہیجان پیدا ہوگیا۔ سابق وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا اس کے بعد تو کرپشن کا پنڈورا باکس کھل گیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے صاف صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ’’معیشت مستحکم ہے ڈی فالٹ کا خطرہ نہیں ہے‘‘ ۔ انہوں نے بہت سے اعداد شمار بھی پیش کئے ہیں اپنے اس دعوے کے حق میں وہ کہتے ہیں پاکستان پر بیرونی قرضہ 62.42 ارب ڈالر ہے۔ 82 ارب ڈالر نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو ڈالر کی قیمت پرویز مشرف کے دور کے مقابلے میں آسمان سے باتیں کیوں کررہی ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ ایک قوم کی تاریخ میں 70سال کی بربادی بہت بڑا المیہ ہے اور وہ بھی ایسی صورت میں کہ اس قوم کی آزادی کا عرصہ صرف 70سال ہو، چین جو ایک نئی سپر پاور بننے جارہا ہےوہ پاکستان کے بعد آزاد ہوا ۔ آج آپ دیکھیں وہ ملک کہاں کھڑا ہے وہ معاشی سپر پاور بن چکا ہے اور دنیا کی سپر پاور بن کر تیزی سے ابھر رہا ہے اور ہم سے یہ کہا جارہا ہے کہ اس بات پر فخر کرو کہ پاکستان 82 ارب کا مقروض نہیں ہے۔ 62.42 ارب کا مقروض ہے۔ پاکستان کو تو قرض دینے والا ملک ہونا چاہئے تھا۔ آج وہ قرضے پر چل رہا ہے ، آپ کو حیرانی ہوگی یہ جان کر کہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور میں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس ہم نے آسٹریلیا جیسے ملک کوقرض دیا تھا۔ 70سال واپس نہیں آسکتے۔ اب بھی اگر ہم عدل قائم کرنے اور کرپشن ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو دس سال میں پاکستان خطے کا دفاعی اور مالیاتی طور پر بڑا ملک بن جائے گا۔ افسوس اس بات کاہے کہ پاکستان صادق اور امین قیادت سے محروم ہے۔ نواز شریف کو اللہ نے تین دفعہ موقع دیا لیکن وہ اپنے ساتھیوں اور مشیروں کی وجہ سے ناکام رہے۔ درحقیقت وہ نااہل لوگ ہیں میں نے پہلے بھی اپنے کاموں میں لکھا اور میاں صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے قریبی مشیروں اور صلاح کاروں سے پیچھا چھڑائیں جب بھی حکومت گئی انہی لوگوں کی وجہ سے گئی اور اب تو ان کے بھائی شہباز شریف نے بھی وہی کہا ہے جو ہم ان سے کہتے رہے۔ شہباز شریف کا یہ بیان 14 اکتوبر کے اخباروں میں شائع ہوا ہے۔ سیاستداں عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں لیکن عوام نا سمجھ نہیں ہیںوہ اندر کی بات سمجھ جاتے ہیں اجتماعی رائے کبھی غلط نہیں ہوتی اب لاکھ یہ کہا جائے کہ سول ملٹری تنائو نہیں اختلاف رائےہے۔ اختلاف رائے وہ ہے جو سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار اور سابق وزیراعظم میں ہے یا سابق وزیراعظم میرظفر اللہ جمالی میں ہے۔ ان کے بہی خواہ ان کو سمجھا رہے، اداروںسے مخالفت مول نہ لیں۔ (ن) لیگ جو ترامیم لانا چاہتی ہے اس سے آئین کی اساس اور آئینی اسٹرکچر کو شدید نقصان ہوگا وفاق کمزور ہوگا۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آئین کے تقدس سے نہ کھیلا جائے۔ پیپلز پارٹی الیکشن کی تیاری کررہی ہے۔ وہ سیاسی ہوشیار شخص ہیں وہ سیاست جانتے ہیں انہیں کوئی راستے سے ہٹا نہیں سکتا ان کی سیاسی چالیں اب تک کامیا ب رہی ہیں۔ تازہ خبروں کا پنڈورا باکس کھلا رہے گا نئے نئے حقائق سامنے آتے رہیں گے سیاسی زلزلہ کبھی بھی آسکتا ہے یہی بڑی اورتازہ خبر ہے اور یہ کئی سیاسی پارٹیوں کو متاثر کرے گی۔ لوگوں کے ذہن تبدیل ہو رہے ہیں اور تبدیل ہوتے رہیں گے۔ سیاسی ماحول گرم ہے۔ اس کا ٹھنڈا ہونا مشکل ہے۔ میرے خیال میں اس کا واحد علاج تبدیلی ہے یہ تو ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی نے کبھی اداروں سے عداوت مول نہیں لی۔ نہ وہ سڑکوں پر آئی۔

تازہ ترین