• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدیدیت یا شکست خوردگی...تحریر:محمد صادق کھوکھر…لیسٹر

آئے دن ہم جدت پسندی کا نعرہ سنتے ہیں۔ کوئی اٹھتا ہے قوم کو روشن خیال بنانے کا مژدہ سناتا ہے- کوئی وقت کے تقاضوں کا رونا روتا ہے۔ کسی کو مذہب کو زمانے سے ہم آہنگ کرنے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ کچھ خواتین و حضرات ملک کا سافٹ امیج پیش کرنے کے لیے ناچ گا کر وطن عزیز کو بدنامی سےنکالنے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ انہیں ناچ گانےکی تعلیم اور تربیت کی فکر دامن گیر ہے اور کسی کی نگاہ میں اسلامی نظریاتی کونسل ملکی ترقی میں مانع ہے۔ یہ اپنی توانائیاں اسے ختم کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ غیر ملکی تنظیموں نے بھی ہمارے ملک کو "جدید" اور "روشن خیال" بنانے کے لیے اپنے دن رات ایک کر دئیے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نام نہاد جدیدیت کا ترقی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اگر یہ حضرات کوئی چیز ایجاد کرتے تو وہ جدت اور ترقی ہوتی۔ اگر معاشرتی زندگی کے لیے کوئی سہولت پیدا کرتے۔ ڈیم بناتے، زرعت کا نظام بہتر کرتے، غریبوں کے لیے روز گار کے ایسے طریقے متعارف کراتے جن سے قوم کو خوشحالی اور ترقی ملتی اور عام آدمی کی زندگی آسان ہوتی۔ تو یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے کہ کوئی نیا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ لیکن ان کا سارا ہدف دینِ اسلام اور دینی روایات کی تباہی و پامالی ہوتا ہے۔ مجھے تو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا یہ کونسی ترقی ہے جو دینی شعار کی پامالی سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جس کی خاطر کچھ لوگ اپنی جانیں کھپا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حضرات اسلام کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔اسلام تو ترقی کا دشمن نہیں ہے۔ اسلام نوعِ انسانی کے لیے فلاح و بہبود چاہتا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ قدرت کے اسرارورموز جاننے کی ترغیب دی ہے۔ اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دئیے،خود مغربی اقوام اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ مسلمانوں کا علوم فنون کے میدان میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ پرنس چارلس نے کئی بار خود بھی اس حقیقت کا اظہار کیا ہے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام ترقی کا دشمن نہیں ہے تو آج ہماری شکست خوردہ ذہنیت کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ مسلمان استعماری قوتوں کی نقالی کرنے پر اتر آے ہیں؟ دراصل اس صورتِ حال کی وجہ یہ ہے کہ استعماریت کی طویل غلامی نے مسلمانوں میں ذہنی شکست خوردگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ جب مسلمان عیش و عشرت میں پڑ گئے تھے انہوں نے علم و تحقیق کا کام چھوڑ دیا تھا۔ محنت اور ریاضت سے منہ موڑ لیا تو وہ کمزور ہوتے چلے گئے۔ اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر غیر ملکی اقوام مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں اور مسلط ہو گئیں۔ اس غاصبانہ قبضے سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ ہمارا نظامِ تعلیم بدلا گیا۔ وہ نظامِ تعلیم جو ہمیں اپنے دین سے واقف کرانے والا تھا اور ہمارا رشتہ ہماری روایات سے مربوط کرنے والا تھا، ہماری تہذیب سے وابستہ کرنے والا تھا، وہ معطل کیا گیا۔ اوقاف کو بھی ہتھیا لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طبقے نے ملازمتوں کے حصول کی خاطر انگریزی سکولوں اور کالجوں کا رخ کیا۔ لیکن جو طبقہ انگریزوں کا مقابلہ کر رہا تھا وہ تھک ہار کر دینی مدارس بنانے پر اکتفا کرنے لگا۔ انہوں نے دیگر علوم سے ناتا توڑ دیا اور ساری توجہ صرف ان دینی علِوم تک محدود کر دی جن کا تعلق صرف عبادات تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اس سے دونوں طبقات میں دوری پیدا ہوتی گئی۔ ایک نے مساجد اور مدارس کا نظام سنبھال لیا۔ لیکن دنیاوی معاملات دوسرے طبقے کے ہاتھ میں چلے گئے۔ اس صورتِ حال سے انگریز خوش تھے۔ انگریزوں نے جو نظامِ تعلیم جاری کیا اس کا نقصان یہ ہوا کہ لوگ اسلام سے دور ہونے لگے۔ اسلام کو فرسودہ خیال کرنے لگے، انہیں اپنی روایات اور تہذیب وتمدن سے بے اطمینانی پیدا ہونے لگی۔ کیونکہ اس نظامِ تعلیم میں مذھب بیزاری پائی جاتی تھی۔اسے ترتیب دینے والے خود خدا کا انکار کرنے والے تھے طلبہ میں بے خدا کائنات کا تصور پیدا ہونے لگا۔ دوسرا تصور یہ جنم لینے لگا کہ انسان اپنا رہنما خود ہے۔ جسے کسی خدا کی رہنمائی درکار نہیں ہے ان سامراجی تصورات نے ہماری نسلوں کو دین سے بیگانہ کر دیا۔ آزادی کے بعد بھی ہمارے ماہرینِ تعلیم کی اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل رہی۔ جزوی تبدیلیاں تو آج بھی ہو رہی ہیں لیکن جن بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت تھی وہ نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ اب تو کئی نظامِ تعلیم رائج ہو چکے ہیں۔ بالادست طبقے نے بھی اسی مرعوبیت کے زیرِاثر ذرائعِ ابلاغ کے ذریعے اباحت پرستانہ رویہ اپنا کر ہماری روایات کے خلاف عریانی و فحاشی کو فروغ دیا تاکہ عام لوگوں کیلئے سامراجی تہذیب و تمدن کو قابلِ قبول بنایا جاسکے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب انسان فکری اور ذہنی لحاظ سے شکست کھاتا ہے۔ تو پھر زندگی کے ہر میدان میں شکست کھانے لگتا ہے۔ اسی فکری افلاس کے باعث مصطفیٰ کمال پاشا نے ترکوں کو زبردستی انگریزی ٹوپ پہنائے حتیٰ کہ جب یہ کمی پوری نہ ہوئی تو یورپ سے ردی کیا ہوا مال درآمد کر کے اس کمی کو پورا کیا گیا۔ پستی کا یہ عالم تھا کہ ترک رسم الخط کا ٹائپ رائٹر بنانے کی بجائے یک لخت رسم الخط ہی تبدیل کر دیا گیا۔ آج بھی مسلم دنیا میں اسی طرح کی نام نہاد ترقی ہو رہی ہے جس پر فخر و ناز بھی ہو رہا ہے اور واعظ اور تلقین بھی بیسویں صدی میں کچھ مفکریں ایسے پیدا ہوئے جنہوں نے اس غلامانہ ذہنیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان مفکریں میں علامہ اقبال، سید قطب شہید اور سید مودودی سمیت کئی دیگر نمایاں شخصیات پیش پیش تھیں۔ انہوں نے دین اور دنیا کی تفریق کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے ایک طرف دلائل سے مغربی افکار و نظریات کا تار و پود بکھیر کر رکھ دیا اور دوسری طرف علماء کی اس غلطی کی نشان دہی بھی کی کہ دین صرف وظائف، عملیات اور نماز روزے کا نام نہیں بلکہ یہ مکمل ضابطہِ حیات ہے۔ یہ زندگی کے تمام معاملات کے متعلق رہنمائی مہیا کرتا ہے لہذاہ معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تمدنی زندگی بھی اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق استوار ہونی چاہئے۔ سید مودودی نے خاص طور پر ایسی کتب لکھیں جس نے پڑھے لکھے طبقے میں بیداری کی لہر پیدا کر دی۔ انہوں نے علماء اور پڑھے لکھے طبقے کو تجدید و احیائے دین کی دعوت دی۔ نیز تجدید اور تجدد کا فرق واضح کیا۔ تجدید کا مطلب اسلام کو نئے سرے سے واضح کرنا ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں تجدد دوسروں کی نقالی کا نام ہے۔آج ہمارا معاشرہ تجدد کا شکار ہے خاص طور پر ہمارا حکمران اور بالادست مسلط طبقہ اپنے رویوں، ذہنی مرعوبیت اور فکری اور نظری حوالوں سے مغرب کا غلام بنا ہوا ہے۔ یہ مراعات کے باعث مقتدر بھی ہے اور با رسوخ بھی۔ مسلمان اسی طبقے کے باعث تنزل اور انتشار کا شکار ہیں۔ ذہنی اور فکری غلام سازی کا مکروہ عمل آج بھی جاری ہے۔ ہمارے نام نہاد دانشور آج بھی نسلِ نو کو غلامیِ جدید کا درس دے رہے ہیں۔ جدیدیت کے نام سے تقلیدِ مغرب اور جمود پیدا کیا جا رہا ہے یہی جمود اور ذہنی مرعوبیت ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے۔ نئی نسل میں خود اعتمادی، مثبت سوچ اور اسلامی شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے اصحابِ علم و دانش کو اس مقصد کے حصول کیلئے آگے بڑھنا چاہئے۔

تازہ ترین