سابق چیف ایگزیکٹو (مملکت پاکستان) اور حکیم حاذق پرویز مشرف (حال مقیم دبئی) نے جمعرات کے روز دبئی کے ایک ہوٹل میں آل پاکستان مسلم لیگ کے نومنتخب عہدیداران اور مرکزی مجلس عاملہ کے اراکین سے خطاب فرمایا۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے قوم کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے مفصل نسخہ تجویز فرمایا۔ اس میں مفرد اور مرکب ہر دو طرح کی ادویات شامل ہیں۔ قدح ہائے طرب انگیز بھی لکھے ہیں اور چرائتے کے تلخ پیالے بھی قوم کے حلق میں انڈیلے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ غذا لکھی تو عسیر الافادہ اور جو دوا لکھی، وہ مریض کا جزو بدن بننے سے منکر ہے۔ کوئی صبوحی اس نسخے میں شیریں نہیں۔ نیز یہ کہ پرویز مشرف کی تشخیص کے اجزا باہم موافق نہیں ہیں۔ ایک مشکل یہ ہے کہ عصر حاضر کے جالینوس کا صدری نسخہ اہل پاکستان نے نو برس تک استعمال کیا ہے۔ افاقہ نہیں ہوا۔ اس عشرہ ندامت کے ابتدائی تین برس تو حکیم پرویز مشرف براہ راست مریض کے بالیں پر موجود رہے۔ قرنطینہ کا حکم دے رکھا تھا۔ آزمودہ طبیبوں کو دیس نکالا دے دیا تھا۔ انہوں نے ایک جماعت مرغان دست آموز کی تیار کی اور اسے مضروب کے جسد ناتواں پر چھوڑ دیا۔ جگہ جگہ نشتر زنی ہوتی تھی۔ رگ جاں پر فصد لگائی جاتی تھی۔ قوم کے قلب سے لہو کا جریان مسلسل ہوا۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا کسب کمال ہمارے کام نہ آیا۔ قوم کو بے حال کر کے اپنی کمر پر ہاتھ رکھا اور علاج کے بہانے بحیرہ عرب پار کر گئے۔ بجرے دریا پار خزانے اپنے ڈھو لے جاتے ہیں… سر اور تن کی جدا جدا اب کے رکھوالی بھیجو نا… جو اپنی کمر کا علاج نہ کر پائے، اس سے وطن عزیز کے درد کی دوا کی توقع کیونکر رکھی جائے۔
جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں نئے چہرے حکومت میں آئیں گے اور عوام ان لوٹا پرستوں سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں جو آئے روز پارٹیاں بدلتے ہیں۔ اس ضمن میں جنرل صاحب کی رائے سے اختلاف کا یارا نہیں۔ لوٹا پسند طبائع کی پہچان میں حضرت نے درک پایا ہے۔ قاف لیگ جنرل مشرف کے اشارہ ابرو پر قائم ہوئی۔ علما حق کی جماعت ایم ایم اے آپ کے دست کرشمہ ساز کا اعجاز تھی۔ پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹ نامی محب وطن آپ نے دریافت کیے۔ قوم قسمت کی ہیٹی ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی جیسے عبقری اب اپنے محسن کی جماعت سے منہ پھیرے بیٹھے ہیں۔ پرویز الہٰی تو جنرل صاحب پر ایسے فریفتہ تھے کہ انہیں دس بار وردی میں منتخب کرنے پر کمر باندھ رکھی تھی۔ اب فیصل صالح حیات نے پیپلز پارٹی سے رجوع کر لیا ہے۔ امیر مقام ان دنوں خیبر پختونخوا میں نواز شریف کا دم بھرتے ہیں۔ پرویز مشرف کا نام آئے تو ایم ایم اے کے علمائے حق شناس سے بھی غیر مستحسن کلمات سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ رشید تو سید مشرف کے خاص رکاب دار تھے۔ اب عوامی مسلم لیگ کے سربراہ بن بیٹھے ہیں۔ ایک ماہر معیشت جنرل صاحب نے دساور سے برآمد کئے تھے، انہیں بطور خاص وزیراعظم بنوایا تھا۔ بینک اور بیوپار کے یہ ماہر اپنے خداوند نعمت سے بھی پہلے ملک چھوڑ گئے۔ ان کی تو کمر میں بھی تکلیف نہیں تھی۔ محض نیت میں اضطراب تھا۔
پرویز مشرف اہل سیاست کے لوٹا نواز مسلک کے منتہی ہیں۔ تاہم حضرت پرویز کی استوار کردہ سیاسی عمارتیں جمہوریت کی ہواؤں میں یکے بعد دیگرے منہدم ہو گئیں۔ اب آنجناب نے کس برتے پر آل پاکستان مسلم لیگ کی بنا ڈالی ہے۔ اگر اس جماعت کو پاکستان بھر میں فروغ دینا ہے تو حکیم الدہر کی نگہ موقع شناس پلٹ پلٹ کے کراچی پہ کیوں ٹھہرتی ہے۔ حضرت تو زبان اور نسل کی سیاست کے کھلے مخالف ہیں۔ کراچی میں کسی ممکنہ سیاسی اتحاد کی خواہش کیوں مچل مچل اٹھتی ہے۔ سیاسی اتحاد تو سیاست دانوں سے کیا جاتا ہے۔ سیاست دا نوں سے تو آپ کے مزاج کو طبعی نفور ہے۔ میر صاحب سادہ ہیں یا رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں۔ بدخواہ کہتے ہیں کہ جنرل صاحب اپنی مادری زبان کے ناتے اہل کراچی کے ووٹوں پر آنکھ رکھے ہوئے ہیں۔
حضور خبردار رہیں۔ 2013ء کے موسم گرما میں کراچی ائیر پورٹ پر آپ کا خیرمقدم کرنے کل ایک ہزار نفوس نمودار ہوئے تھے۔ آپ نے محترمہ بے نظیر بھٹو جیسے استقبال کی امید باندھ رکھی تھی۔ بے نظیر بھٹو جیسی پذیرائی کے لئے لیاقت باغ پنڈی کی سڑک سے گزرنا پڑتا ہے اور پھر سہولت بھی میسرنہیں ہوتی کہ جب چاہا عدالت کی بجائے جاں نثاروں کے جلو میں اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑے رہیں۔ جنرل صاحب نے اپنے کارکنوں کو چین آف کمانڈ کی پیروی کا درس دیا ہے۔ آقائے من، کیا آپ واقعی نہیں جانتے کہ سیاست میں چین آف کمانڈ نہیں ہوتی؟ اور چین آف کمانڈ بھی تو سورج مکھی کا پھول ہے۔ 2007ء آتے آتے رخ بدل لیتی ہے۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے تجویز دی ہے کہ عدلیہ اور فوج کو ملا کر ٹیکنو کریٹ حکومت بنائی جائے جس سے ملک کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ صحیح اور غلط کا یہ ملغوبہ بھی جنرل صاحب کی بے تہہ حکمت کا نمونہ ہے۔ 1954ء سے درجنوں ٹیکنو کریٹ حکومتیں عدلیہ اور فوج کے باہم تعاون ہی سے تشکیل پائی ہیں۔ اس میں کون سی جدت ہے؟ قابل غور تو یہ نتیجہ ہے کہ اس ترکیب سے ملک کے حالات بہتر نہیں ہوتے۔ جنرل صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ٹیکنو کریٹ حکومت میں موقع ملا تو اس کا حصہ ضرور بنوں گا۔ جنرل صاحب کا حافظہ کمزور ہے۔ چین آف کمانڈ کا فلسفہ کہتا ہے کہ آزمودہ آلات کار کو دوسری بار آزمایا نہیں جاتا۔
آپ نے بھی تو اپنے دور پرفتن میں پرانے ودوانوں کو از کار رفتہ قرار دے دیا تھا۔ مرحوم حمید گل آپ کی قدر ناشناسی پر گہرے ملال میں رہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ جنرل صاحب خود کو سیاست دان سمجھتے ہیں یا ٹیکنو کریٹ۔ اگر ٹیکنو کریٹ سمجھتے ہیں تو سیاسی جماعت کیوں بنائی ہے اور اگر سیاست دان ہیں تو ایسی حکومت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں۔ سیاست تو آئین کی کتاب پر بھروسہ کرنے کا نام ہے۔ عوام کا اعتماد جیت کر قوم کی خدمت کی جاتی ہے۔ جنرل صاحب ہمیں ایسے متناقض نسخے تجویز کرتے ہیں کہ اٹھائے نہ بنے۔ غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے۔