• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب پھر ایک سفر درپیش ہے مجھے ملک سے باہر جانا ہے۔ سفر وسیلہ ظفر ہے ہمارے پرانے وزیراعظم حضرت نواز شریف بھی آج کل بہت سفر کرتے نظر آرہے ہیں۔ چند ماہ میں انہوں نے لندن کا کئی بار سفر کیا۔ ان کی بیگم علیل ہیں۔ پھر پاکستان میں ان کو عدالتوں کا سامنا ہے۔ سیاسی رہنمائوں کے لئے عدالت ایک اہم جگہ ہوتی ہے پہلے میاں نواز شریف عدالت لگایا کرتے تھے۔ اب عدالت کا سامنا ہے کئی سال پہلے میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر عدالت گئے تھے اس وقت ان کا مقصد عدالت کی توقیر میں اضافہ کرنا تھا۔ اب تک تو ان پر الزامات کی یلغار ہے۔ ہمارے ہاں تو مقدمات سالوں چلتے ہیں اور اس ہی سے تو ہمارا نظام چلتا ہے۔ ہمارا نظام بھی خوب ہے۔ جس میں بدانتظامی کا بڑا ہاتھ ہے۔ بدانتظامی میں پاکستانی نوکر شاہی کا بھی جواب نہیں اور یہ نوکر شاہی عوام کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ آج کل پاکستان میں دو باتوں پر بہت غور ہو رہا ہے۔ ایک مکتب فکر کو تشویش ہے کہ ہماری معیشت بڑی خرابی سے دوچار ہے۔ ان سب کی بنیادی دلیل ملک پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ قرضے کسی ملک کی معیشت میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں قرضوں کا استعمال نوکر شاہی کے ذریعے ہوتا ہے اور خرابی اور بدانتظامی کی وجہ سے قرضوں کا استعمال مشکوک نظر آتا ہے۔ پاکستان اب تک جتنے قرضے لے چکا ہے اس کے بعد معیشت کی حالت کو بہتر ہونا چاہئے تھا۔ مگر ایسا ہو نہیں رہا۔ ملک میں بجلی کا بحران ختم ہونے کی نوید دی جا رہی ہے۔ مگر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ مجھے سفر کے لئے زر مبادلہ کی ضرورت ہے۔ اب زر مبادلہ بیرونی ملک کی کرنسی میں دستیاب ہوتا ہے۔ پہلے تو ہمارے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار ڈالر پر نظر رکھتے تھے۔ آج کل ان کو بھی عدالتوں کا سامنا ہے اور دیگر کام بھی تو کرنے ہیں۔ اب ڈالر کو دوبارہ سے پر لگ رہے ہیں۔ صرف ایک ہفتہ میں اس کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے پھر بازار میں ڈالر کی قلت بھی ہے اور سرکاری طور پر سرکار کے خزانہ میں بھی ڈالر کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پھر ترقی کے منصوبوں اور ہمارے دوست چین کی مروت اور مہربانی سے سی پیک کا منصوبہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے بھی ڈالر کی کمی نظر آ رہی ہے۔ تارکین وطن کے ڈالر بھی کچھ کم ہو گئے ہیں۔ نوکر شاہی کی ناقص منصوبہ بندی سے ہر چیز باہر سے منگوائی جا رہی ہے۔ اب چند دن پہلے قومی آمدنی میں اضافہ کے لئے درآمدی اشیاء کی بڑی تعداد پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ مگر اندرون ملک کی اشیاء پر توجہ نہیں ہے۔ اس لئے ڈالر کی قیمت پر کنٹرول ضروری ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ اگر ڈالر پر توجہ دیں تو اس کی قدر کو کنٹرول کرنا آسان ہو گا۔
میاں نواز شریف آج کل سعودی عرب میں اپنی والدہ کے ساتھ عمرہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پھر ان کی عبادت اور ریاضت پاکستان کے لئے بھی تو ہے۔ ہمارے سابق وزیراعظم کو پاکستان کی بہت فکر ہے اور آج کل امریکی ہمارے معاملات پر خصوصی توجہ دیتے نظر آ رہے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی ولی عہد بڑی تبدیلیاں کرتے نظر آ رہے ہیں وہاں پر بھی میاں نواز شریف اہم سعودی لوگوں سے میل ملاقات کر رہے ہیں۔ امریکی دوست سعودی عرب کے ذریعے ہماری سیاست اور ریاست کے معاملات کے لئے توجہ دیتے نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی مصروفیات بہت اہم جا رہی ہیں۔ پاکستان کی ایک اور قد آور شخصیت اور سابق کمان دار پاک افواج جنرل راحیل بھی سعودی حکومت میں اہم حیثیت کے حامل ہیں۔ اور پاکستان کے لئے مشاورت میں ان کا کردار بھی سابق وزیراعظم کی طرح اہم لگتا ہے۔ ابھی تک دونوں کی ملاقات کی خبر نہیں آئی۔ مگر دونوں سابق اہم پاکستانی لیڈر بہتر پاکستان کے لئے سوچتے تو ضرور ہوں گے۔
ہمارے سیاسی لیڈر اور اشرافیہ آج کل جو زبان استعمال کر رہی ہے وہ ان کے قول اور فعل کو مشکوک بنا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈر اور کپتان نے ایک اچھا فیصلہ کر ہی لیا۔ اس کی کافی عرصہ سے پاکستان الیکشن کمیشن سے مقدمات بازی چل رہی تھی۔ وہ بھی جوش جذبات میں بات کا خیال نہیں کرتے اور اس ہی وجہ سے الیکشن کمیشن نے اپنی عدالت کی توہین کرنے پر ان کو طلب کر رکھا تھا۔ یہ معاملہ کافی عرصہ سے چل رہا تھا۔ پھر کپتان نے معاملہ فہمی کی اور الیکشن کمیشن سے معافی مانگ لی۔ الیکشن کمیشن نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کپتان کو معاف کر ہی دیا۔ مگر اب ریاست کے دوسرے اہم لوگ اس معاملہ پر بھی سیاست کرتے نظر آ رہے ہیں۔سابق صدر آصف علی زرداری نے اس معافی کو بھی پسند نہیں کیا اور جعلی نیازی کا نام دے کر کوئی اچھا تاثر نہیں دیا۔
اس وقت سب سے زیادہ مشکل میں پیپلز پارٹی نظرآرہی ہے۔ سندھ میں ان کی حکومت ہے۔ مگر معاملات ان کے کنٹرول سے نکلتے نظر آ رہے ہیں۔ بلاول پر ان کا اعتماد مشکوک ہے اب سنا ہے کہ وہ بے نظیر کی بیٹی کو میدان سیاست میں لا رہے ہیں۔ بڑی دیر کے بعد خیال آیا۔ مگر خیال اچھا ہے۔ مسلم لیگ نواز بھی اب انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے۔ مگر اہم سوال ہے کہ ملک کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور سب سیاسی لوگ اس جنگ کو جمہوریت کی جنگ کہہ رہے ہیں اور ان سب کے لڑنے کا انداز اور طریقہ غیر جمہوری ہے۔ جمہوریت تو برداشت کا نام ہے۔ ہمارے سیاسی لوگوں اور اشرافیہ میں برداشت ختم ہو چکی ہے ان کا روزمرہ کا بیان ہی جمہوریت دشمن نظر آتا ہے۔ اس جمہوری جنگ میں پاکستان کمزور ہو رہا ہے۔ ایک دوسرے پر شک اور سازش کا گمان سیاسی لوگوں کو بھی پریشان کر رہا ہے۔ سیاسی لوگوں کی پریشانی آئندہ انتخابات کے حوالے سے تشویشناک ہے۔

تازہ ترین