میں نے آج صبح ٹی وی آن کیا تو میرا خیال تھا کہ ہیڈ لائن کی پہلی خبر حسب معمول کسی اداکار یا اداکارہ کے بارے میں ہوگی کہ آج اس کی بارھویں برسی ہے اور وہ خبر کچھ اس قسم کی ہوگی کہ اداکارہ چھمک چھلو کی بارھویں برسی کی یاد میں آج ملک بھر میں تقریبات منعقد ہوں گی۔ اس کے ساتھ پانچ منٹ کی ایک دستاویزی فلم دکھائی جائے گی جس میں وہ بھونڈے انداز میں اچھلتی کودتی، کسی بے تکے گانے پر ہونٹ اور دیگر ”اعضائے رئیسہ“ ہلاتی نظر آئے گی اور میں سوچ میں پڑ جاؤں گا کہ یہ اداکارہ چھمک چھلو کون تھی، جس نے ملکی اور غیر ملکی فلم بینوں کے ذہنوں پر اپنی لازوال اداکاری کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو مجھے یاد نہیں آرہے مگر وہ ٹی وی پروڈیوسر کے ذہن پر ابھی تک سوار ہے اور وہ کروڑوں بے خبر ناظرین کو اپنی اس محبت میں شامل کرنا چاہتا ہے لیکن مجھے بے حد مایوسی ہوئی کیونکہ پہلی پانچ سرخیاں ایسے ہی گزر گئیں، البتہ چھٹی سرخی میں بتایا گیا کہ آج علامہ اقبال کا یوم پیدائش منایا جا رہا ہے جس پرمجھے بے حد خوشی ہوئی ورنہ میرے دل میں یہ بدگمانی پرورش پارہی تھی کہ ہمارے ٹی وی چینلوں کے پروڈیوسروں کا مبلغ علم صرف نو آموز اداکاروں اور موسیقاروں اور کھلاڑیوں تک محدود ہے اور انہیں علم ہی نہیں کہ ہماری تاریخ کیسے کیسے ادیبوں، شاعروں، مفکروں، سائنسدانوں اور دوسری پہاڑ ایسی شخصیتوں سے بھری پڑی ہے ایک دن پہلے میں نے اپنے دفتر کے ملازموں کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ کل ان کی چھٹی ہے وہ اس اطلاع پر بے حد خوش ہوئے مگر ان میں سے ایک نے پوچھا ”سر! چھٹی کس بات کی ہے؟“ میں نے اسے بتایا کہ کل اقبال کا یوم پیدائش ہے!“ یہ سن کر اس نے مجھے مبارکباد دی اور پوچھا ”سر! خیر سے اقبال اب کتنے سال کا ہوگیا ہے؟“ اس پر میں نے سوچا کہ اس کی چھٹی منسوخ کردوں، مگر پھر خیال آیا کہ اس کا کیا قصور ہے، اسے تو ساری معلومات اداکارہ چھمک چھلو کی داستانِ حیات کے حوالے سے فراہم کی گئی ہیں بلکہ ”حیات“ کا توشاید اسے علم ہی نہ ہو، کیونکہ اب پوری قوم آہستہ آہستہ حیات سے محروم اور واہیات سے قریب ہوتی چلی جا رہی ہے۔
چلیں چھوڑیں ان باتوں کو، اقبال کی بات کرتے ہیں جس نے اپنی شاعری سے نہ صرف پورے عالم اسلام کو حیات نو دینے کی کوشش کی بلکہ عالم انسانیت کو بھی ایک ایسی نئی صبح کا پیغام د یا جس کی تابانیوں سے تاریک دل روشن ہوسکتے ہیں۔ وہ علم کے پھیلاؤ اور جستجو کے عمل کو اس کائنات کا راز معلوم کرنے کی کلید سمجھتا ہے،وہ دیر و حرم کے نام پر پھیلائی ہوئی گمراہیوں کی تردید کرتا ہے۔ وہ مذہبی پیشواؤں کی ریاکاریوں کا پردہ چاک کرتا ہے، جس کھیت سے دہقان کو روزی میسر نہ ہو، وہ اس کھیت کو جلا دینے کا قائل ہے، وہ سرمایہ داری نظام کا کھوکھلا پن ظاہر کرتا ہے، وہ خدا کی عدالت میں انسان کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے وہ لبرٹی بھی لیتا ہے جس کا حوصلہ آج تک کسی اردو شاعر کو نصیب نہیں ہوا، شاید اس لئے انتظار حسین نے اپنی ایک تقریرمیں کہا کہ پوری اردو شاعری میں اگر کسی شاعر کو عظیم شاعر کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف اقبال ہے ہمارے درمیان پیدا ہونے والا یہ بدنصیب عظیم شاعر خودی کا پاسدار ہے۔ خرد کی ایسی مصلحتوں کے خلاف ہے جو اسے ارفع و اعلیٰ منزلوں سے دور لے جائے وہ آخرت کا قائل ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی پر فخر کرتا ہے، ہماری عبادات اب عبادات نہیں رہیں، رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہیں، یہ عبادات بے غرض بھی نہیں چنانچہ ہم ان کی تاثیر سے بھی محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں ان لمحوں میں بھی مجھے اقبال بہت یاد آتا ہے:
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر، پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر
تیرا امام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
لیکن جب ہم اپنی زندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری اور اقبال کی منزلیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں، ہم اتحاد کی بجائے نفاق کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ہمیں ان تمام سجدوں کی عادت پڑ چکی ہے جو صرف ایک سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں کرنا پڑ رہے ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں مگر ہم ہر وقت ہر کسی نہ کسی سے لرزہ بر اندام رہتے ہیں، مولانا روم نے ایک حکایت بیان کی ہے جس کے مطابق ایک طوائف نے اپنی کمر کے ساتھ ایک تلوار باندھی ہوئی تھی، کسی نے اس سے پوچھا کہ” تم اپنے ساتھ ہر وقت یہ تلوار کیوں لئے پھرتی ہو؟“ اس نے کہا ؟”تاکہ اگر کوئی میری طرف میلی نظر سے دیکھے تو میں یہ تلوار اس کے سینے میں بھونک دوں!“ ہماری حالت تو اس سے بھی بری ہے، امریکہ ہم سے پوچھتا ہے کہ تم نے ایٹم بم کی تلوار کمر کے ساتھ کیوں باندھی ہوئی ہے ہم کہتے ہیں جناب! آپ اس بات کو چھوڑیں آپ بتائیں آپ اور آپ کے حواری ہمیں ہر وقت میلی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں، ہمیں آنکھیں بھی مارتے ہیں، ہماری ران پر چٹکی بھی بھرتے ہیں، بھرے بازار میں ہم پر آوازیں بھی کستے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی اس کا برا منایا ہے یا کبھی ہلکا سا احتجاج بھی کیا ہے؟ حضور والا! ہم نے یہ تلوار محض شوشا کے لئے باندھی ہوئی ہے، آپ اس کی فکر نہ کیا کریں، آپ کیوں اس کا ذکر کرکے ہمیں خواہ مخواہ شرمندہ کرتے ہیں۔
اقبال کے ساتھ ہم نے ایک زیادتی اور بھی کی ہے اور وہ جمہوریت کے بارے میں اس کے دو اشعار کے حوالے سے ہے جس میں سے ایک میں اس نے کہا ہے کہ دو سو گدھوں کے مغز میں سے انسانی فکر برآمد نہیں ہوسکتی چنانچہ ہر دور آمریت میں ان شعروں کو استعمال کیا گیا، حالانکہ جس دور میں اقبال نے یہ اشعار کہے وہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ جائے پناہ کے لئے جدوجہد کا دور تھا۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے جن کے مستقبل کا فیصلہ ہندو اکثریت اور مسلمانوں کے علیحدہ ملک کی مخالف ”اسلامی“ جماعتوں نے کرنا تھا، چنانچہ وہ جمہوریت ہمیں منزل سے دور لے جاسکتی تھی تاہم اقبال کی شاعری کا مجموعی تاثر اس سے مختلف ہے، وہ فرد واحد کی فصیلوں کا اختیار کہیں بھی نہیں دیتا، وہ اپنے خطبات میں پارلیمینٹ کی بالادستی کا قائل ہے بلکہ اس حد تک قائل ہے کہ اس کے نزدیک پارلیمینٹ کو اجتہاد کا حق بھی حاصل ہے چنانچہ آج جو لوگ پارلیمینٹ کے خلاف شمشیر بکف نظر آتے ہیں وہ ناانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں، سیاستدانوں نے ملک بنایا تھا، سیاستدان ہی ملک کو بچائیں گے اور اسے مستحکم بنائیں گے۔ سیاستدان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود فوجی آمروں سے ہزار گنا بہتر ہیں، اس وقت پیپلز پارٹی اپنے ہم نواؤں کے ساتھ برسر اقتدار ہے، مجھے اس جماعت سے کبھی اتفاق نہیں رہا لیکن میں پہلے دن سے پورے تواتر کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ وہ دن پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت برا دن ہوگا جب اسے اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی جائے گی۔ یہ لوگ ہمارے ووٹوں سے آئے ہیں ، ہم انہیں اپنے ووٹوں ہی سے واپس بھیجیں گے۔ اس پارٹی پر کرپشن کے جو الزامات ہیں اس کا فیصلہ عدالتوں پر چھوڑ دیں اور عدالتوں کے حوالے سے مجھے یقین ہے کہ ان کی طرف سے کوئی ایسا فیصلہ نہیں آئے گا جو پورے جمہوری سیٹ اپ کا بوریا بستر ہی گول کر دے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاستدانوں میں بے حد برے لوگ بھی ہیں چنانچہ میری رسم وراہ ایک ایسے شخص سے بھی ہے جو روزانہ دس بارہ لاکھ کی دہاڑی لگاتا ہے، اس طرح کے لوگ جس سیاسی جماعت میں بھی ہوں انہیں کسی عدالتی فیصلے کے بغیر کان سے پکڑ کر پارٹی سے نکال دینا چاہئے کیونکہ کسی انتظامی عہدے پر فائز ایسے لوگوں کو جب پہلی بار تنخواہ کا چیک ملتا ہے تو وہ حیرت سے اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں اور خود کلامی کے انداز میں کہتے ہیں ”ہیں! اس کام کی تنخواہ بھی ملتی ہے؟“(لاہور میں منعقدہ مرکزیہ مجلس اقبال کے یوم اقبال کے جلسے میں پڑھا گیا) ۔
تصحیح:… میرے گزشتہ کالم میں پروف کی غلطی سے ”کشور ناہید شاعرہ رہی ہیں“ شائع ہوا ہے حالانکہ اصل جملہ یہ تھا کہ کشور ناہید شاعرہ ہی نہیں بلکہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کرنے والی خاتون بھی ہیں!“ ۔