آمریت کے خلاف نظمیں لکھنے والے شاعر کی گرفتاری کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ گرفتاری سے قبل یہ شاعر سکھر میں اپنی بیوی اور بچوں کو تسلی دے رہا تھا تو اس کے چھوٹے بیٹے سلیم نے پوچھا’’بابا، پاکستان سے فاشزم کب جائے گی؟‘‘ باپ کے پاس بیٹے کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا، پھر اس کی بیوی نے روتے ہوئے کہا’’آپ شاعری چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘۔ شاعر نے اپنی بیوی کے آنسو پونچھے اور اسے دلاسہ دیا لیکن بیوی نے پھر آنسو بہاتے ہوئے کہا اگر میں آپ کے پیچھے مرجائوں تو بچوں کا کیا ہوگا؟ یہ سن کر شاعر ٹھٹک گیا لیکن پھر اس نے بڑے یقین سے اپنی بیوی کو کہا کہ ممکن ہے میں جیل میں مرجائوں مگر پتہ نہیں کیوں میرا دل کہتا ہے کہ ابھی مجھے بہت کچھ لکھنا ہے اتنا لکھنا ہے جتنا برصغیر کے کسی بھی شاعر نے نہیں لکھا اور یہ میں تیرے بغیر سرانجام نہیں دے سکتا، اس لئے تم ابھی کئی برس زندہ رہوگی۔ یہ واقعہ سندھی زبان کے عظیم شاعر شیخ ایاز کی کتاب’’ساہیوال جیل کی ڈائری‘‘ میں پڑھ کر میں نے چند لمحوں کے لئے کتاب بند کردی اور سوچنے لگا کہ پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے شیخ ایاز کو ساہیوال جیل میں قید کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس نے ایک باغی شاعر کی آواز بند کردی لیکن شاعر اس واقعے کے پچاس سال بعد بھی اپنے لفظوں کی صورت میں ز ندہ ہے اور اس کی شاعری آمریت پسندوں کے لئے مقام عبرت ہے۔ شیخ ایاز کی کتاب’’ساہیوال جیل کی ڈائری‘‘ 1968ء میں سندھی زبان میں لکھی گی تھی۔ کرن سنگھ نے اس کا اردو ترجمہ کیا جسے مکتبہ دانیال کراچی نے شائع کیا۔ یہ نادر کتاب میں نے کراچی میں ہونے والے دوسرے سندھ لٹریچر فیسٹیول کے ایک اسٹال سے خریدی۔ یہ کتاب ناانصافی کے شکار ایک دکھی اور مغموم دل کے جذبہ مزاحمت کی آواز ہے۔ ایسی بہت سی آوازیں مجھے سندھ لٹریچر فیسٹیول میں بھی سنائی دیں۔ کراچی کے ساحل سمندر پر واقع بیچ لگثری ہوٹل میں سندھی ادب کے نام پر پورے پاکستان سے ا ہل فکر و نظر کو اکٹھا کیا گیا تھا تاکہ اہل سندھ انہیں اپنا حال دل سنائیں اور کچھ ان کی بھی سنیں۔ سندھ لٹریچر فیسٹیول میں سیاسی شعور سے مالا مال بہت سے پڑھے لکھے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جن کے لب و لہجے میں شیخ ایاز کی جھلک نمایاں تھی۔ شیخ ایاز کسی زمانے میں اردو زبان میں بھی شاعری کیا کرتے تھے لیکن پھر انہوں نے صرف سندھی زبان میں شاعری کا فیصلہ کیا۔ وہ خالد اسحاق اور اے کے بروہی کے ساتھ وکالت کیا کرتے تھے لیکن انہوں نے سندھی میں شاعری کے لئے کراچی کو خیر باد کہا اور سکھر جابسے۔ سندھی زبان میں شاعری کا یہ مطلب نہیں تھا کہ انہیں دوسری زبانیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔ انہوں نے شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کو سندھی سے ا ردو میں ترجمہ کیا اور ساہیوال جیل کی ڈائری میں تو انہوں نے کھلم کھلا اپنے پنجابی دوستوں اور پنجابی زبان کے ساتھ محبت کا اظہار بھی کیا ہے۔
ساہیوال جیل کی ڈائری میں ایک جگہ شیخ ایاز نے روزنامہ مشرق میں شائع ہونے والی کچھ خبروں کو نقل کیا تاکہ پچاس سال کے بعد ان کی کتاب پڑھنے والوں کو پتہ چلے کہ انہوں نے یہ ڈائری کن حالات میں لکھی تھی۔ ایک خبر کے مطابق صحافیوں نے اخبارات پر پابندیوں کے خلاف کراچی میں جلوس نکالا۔ گوجرانوالہ میں تحریک جمہوریت کے 26کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ سیالکوٹ کے طلبہ عید نہیں منائیں گے بلکہ عید کے دن بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھیں گے۔ یہ خبریں نقل کرنے کے بعد شیخ ایاز نے اپنی ڈائری میں شکوہ کیا ہے کہ پنجاب کے اخبارات میں سندھ کی خبریں بہت کم شائع ہوتی ہیں۔ پچاس سال پہلے شیخ ایاز نے جو شکوہ اپنی ڈائری میں لکھا تھا پچاس سال کے بعد یہ شکوہ سندھ لٹریچر فیسٹیول میں پاکستان کے اردو الیکٹرانک میڈیا کے خلاف بہت زور سے سنائی دیا۔ سندھ لٹریری فائونڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس ادبی میلے میں ایک سیشن کا موضوع تھا۔’’کیا میڈیا کو ایسا ہی ہونا چاہئے؟‘‘ اس سیشن کی میزبانی وسعت اللہ خان نے کی جبکہ اظہر عباس، عامر خاکوانی اور ا شفاق آذر کے علاوہ اس ناچیز کو بھی الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں بہت سے تلخ سوالات کا جواب دینا پڑا۔ نور الہدیٰ شاہ صاحبہ نے یہ شکایت کی کہ اردو اخبارات اور ٹی وی چینلز کراچی اور اندرون سندھ کو دو مختلف علاقے بنا کر کیوں پیش کرتے ہیں حالانکہ کراچی صوبہ سندھ کا دارالخلافہ ہے اردو میڈیا لاہور اور اندرون پنجاب کی اصطلاحات کیوں استعمال نہیں کرتا؟
سندھ لٹریچر فیسٹیول میں میڈیا کے متعلق ہونے والی بحث میں وسعت اللہ خان کے سوالات نے خاصی ہلچل پیدا کردی کیونکہ وہ گھر کے بیدی ہیں اور لنکا ڈھانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس گفتگو میں میڈیا کی خامیوں کا ذکر بھی ہوا اور اعتراف جرم بھی ہوا۔ ظالموں کی بات بھی ہوئی اور مظلوموں کی بات بھی ہوئی۔ میڈیا پر تنقید اور طنز سے بھرے کئی جائز سوالات کا جواب دیتے ہوئے میں نے دی نیوز کے صحافی احمد نورانی کا ذکر کیا جنہیں اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ صحافیوں پر تشدد اور ان کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف میں نے ایک قرار داد پیش کی جسے سندھ لٹریچر فیسٹیول کے حاضرین کی بڑی تعداد نے ہاتھ ا ٹھا کر منظور کیا اور مجھے ایسے لگا جیسے احمد نورانی کا بیٹا اسپتال میں پڑے اپنے زخمی باپ سے پوچھ رہا ہے’’ابوّ!پاکستان میں فاشزم کب ختم ہوگا؟‘‘ اور زخمی احمد نورانی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اس اجتماع میں لاپتہ افراد کا ذکر آیا تو ایسے تالیاں بجیں جیسے یہ سندھ کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ہماری گفتگو کے بعد چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا سیشن تھا جس کا موضوع تھا ’’یہ ریاست کس کی ریاست ہے؟‘‘ ۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر’’ایک محفوظ معاشرے کا خواب‘‘ کے موضوع پر گفتگو کررہے تھے۔ اس ادبی میلے کے موضوعات اور یہاں ہونے والی باتیں مجھے اندر سے جھنجوڑ رہی تھیں۔
سبین محمود پر ذوالفقار ہالی پوتو کی کتاب کی تقریب رونمائی، تھر کے مسائل پر گفتگو کو’’صحرا کی چیخ ‘‘ کا نام دیا گیا اور پینے کے صاف پانی کی قلت کو’’قاتل پانی‘‘ کا نام دے کر گفتگو کی گئی۔ سندھ لٹریچر فیسٹیول کے منتظمین اعجاز منگی، مصطفیٰ جروار، نصیر گوپانگ، ناجیہ میر، زوہیب کا کا اور ان کے ساتھیوں نے محدود وسائل کے ساتھ اداس لوگوں کو اس ادبی میلے میں اکٹھا کیا اور ان میں جینے کی نئی امنگ پیدا کی۔ اس میلے میں لوک گلوکار مانجھی فقیر نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ مانجھی فقیر کی آواز میں اداسی بھی ہے، مزاحمت بھی ہے اور دبدبہ بھی ہے۔ اس کی آواز میں شیخ ایاز بولتا ہے۔ شیخ ایاز اب دنیا میں نہیں رہے لیکن مانجھی فقیر کے لہجے میں وہ آج بھی زندہ ہیں۔ پچاس سال پہلے شیخ ایاز کے بچے اپنے والد سے پوچھ رہے تھے فاشزم کب ختم ہوگا؟ پچاس سال بعد احمد نورانی کے بچے اپنے والد سے پوچھ رہے ہیں فاشزم کب ختم ہوگا؟ اداس اہل فکر و نظر کی اداس نئی نسل پریشان ضرور ہے لیکن پرعزم ہے۔ ریاست کو اپنا فاشزم ختم کرنا ہوگا فاشزم ختم کئے بغیر یہ ریاست نہیں چلے گی۔ یہ اداس لوگوں کا ریاست کے لئے پیغام ہے۔