• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گجرات یونیورسٹی نے مقابلہ جیت لیا...گریبان …منوبھائی

یہ شاید ”وکی لیکس“ کے انکشافات جیسی صحیح دکھائی دینے والی گمراہ کن غلط فہمی ہے کہ ”ایچ آئی وی پازیٹو“ اور”ایڈز“ ایک ہی مہلک بیماری کے دو نام ہیں اور یہ کہ ایڈز کے پھیلاؤ میں سب سے زیادہ کردار جنسی بے راہ روی کا ہے اور جنسی بے راہ روی کے فریق صرف مرد اور عورتیں ہوتی ہیں اور اس میں زیادہ دخل اپنے عہد کی جدید سہولتیں اور بہتر مستقبل کی خواہش رکھنے والی لڑکیوں اورعورتوں کا ہوتا ہے، جیسے گناہ صرف دعوت گناہ دینے والوں پر تھوپا جاتا ہے، اس دعوت کو قبول کرنے والوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔
پنجاب ایڈز کونسل پروگرام (PACP)نے”عالمی ایڈز ڈے“ پر اپنے علاقے کے قابل ذکر اور موقر تعلیمی اداروں کے مابین مختصر ڈراموں اور خاکوں کا ایک دلچسپ مقابلہ کروایا جو بلاشبہ آگاہی اور شعور کی ترویج و اشاعت کا سب سے موٴثر ذریعہ ہوتے ہیں مگر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی نام نہاد”چادر اور چار دیواری کی حفاظت“ کے بہانے تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں کی لائبریریوں کی گرانٹس بند کرنے کے علاوہ سکولوں اور کالجوں کے سالانہ ڈراموں کی صحت مندثقافتی سرگرمی کو بھی عریانی اور فحاشی کے تدارک کے نام پر موت کے گھاٹ اتاردیا۔
مختصر ڈراموں اور خاکوں کے اس مقابلے میں طلباء ، طالبات اور نئی نسل کے افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مقابلے میں حصہ لینے والی دانش گاہوں میں فاطمہ جناح گرلز کالج لاہور، لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی، بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی ا ور یونیورسٹی آف گجرات شامل تھیں۔ اس مقابلے کے ججوں کا پینل منیزہ ہاشمی کی زیر صدارت سلمان شاہد ، جمیل فخری اور راقم الحروف پر مشتمل تھا۔
یہ بات تو حوصلہ دینے والی تھی کہ ہماری نئی نسل زندگی اور معاشرت کے ناقابل ذکر اور چھپائے جانے والے حقائق پر توجہ دینے اور دلانے کا حوصلہ رکھتی ہے مگر افسوس بھی ہوا کہ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کی تین چوتھائی اکثریت اوپر بیان کئے گئے وکی لیکس کے انکشافات جیسی غلط فہمیوں میں مبتلا ہے۔ صرف ایک یونیورسٹی آف گجرات ہے کہ جس کے ڈرامہ لکھنے اور پیش کرنے والوں نے اس سلسلہ میں اصل حقائق کو پیش نظر رکھا اور موٴثر انداز میں پیش کیا اور اس مقابلے میں اول انعام کی حقدار پائی گئیں جبکہ ان کی پیشکش سے پہلے یہ انعام بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور کے ڈرامے کی ہیروئن اپنی جاندار اور بے ساختہ اداکاری کے بل بوتے پر اپنے ادارے کے لئے جیت چکی تھیں اور تمام ججوں کا یہی فیصلہ تھا مگر یونیورسٹی آف گجرات کے خاکے کے پہلے منظر کو دیکھتے ہوئے منیزہ
ہاشمی نے میرے کان میں کہا کہ گجرات والے ہمیں سرپرائز دے سکتے ہیں اس سے اگلے منظر میں ایڈز کے مرض میں ”جنڈر بیلنس“ کا اعلان کرکے گجرات والوں نے یہ انعام جیت لیا۔ سلمان شاہد اور جمیل فخری کا بھی یہ فیصلہ تھا کہ گجرات جیسے پسماندہ دیہی علاقے کا شعور لاہور کی نامور دانش گاہوں کی فہم و فراست سے بازی لے گیا ہے ۔ بیکن ہاؤس یونیورسٹی دوسرے انعام کی مستحق قرار پائی ا ور تماشائیوں نے پرزور تالیوں کے ذریعے اس فیصلے کی پذیرائی کی۔
یکم دسمبر1998ء سے وطن عزیز پر نازل ہونے والے چوتھے مارشل لاء سے ایک سال پہلے عالمی سطح پر شعور اور آگہی میں اضافے کے لئے”ورلڈ ایڈز ڈے“ منانے کا فیصلہ اور اعلان کیا گیا۔ ماہرین طب کے مطابق یہ سلسلہ بہت حد تک کامیاب رہا کیونکہ معاشرے کے ہر حصے نے ایڈز اور ایچ آئی وی پازیٹو کی جانب سنجیدہ توجہ دی۔ یواین او کے مطابق 2009ء میں عالمی سطح پر ایچ آئی وی اور ایڈز سے متاثر ہونے والوں کی تعداد تین کروڑ33لاکھ تھی۔ ان میں 25لاکھ خواتین اور بچے تھے تقریباً 26لاکھ لوگ ایچ آئی وی وائرس سے متاثر تھے جن میں سے گیارہ لاکھ لقمہ اجل بن گئے۔
اگرچہ ان متا ثرین کی اکثریت غریب ملکوں سے تعلق رکھتی تھی مگر یہ وائرس مہذب ا ور امیر ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ایڈز کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ عالمی سروے رپورٹ کے مطابق انتقال خون کے سلسلہ میں ہونے والی بداحتیاطی ہے۔ اس کے بعد ایڈز اور ایچ آئی وی وائرس کے زد میں آنے کی دوسری سب سے بڑی وجہ استعمال شدہ سرنجوں کو نشہ بازی کے لئے استعمال میں لانے والوں کی ہے ۔جنسی بے راہ روی ، غیر قانونی ،غیر اخلاقی، غیر فطری جسمانی تعلقات اس سلسلے میں تیسرے نمبر پر چلے جاتے ہیں۔
اس حقیقت تک پہنچنے میں بھی شائد کچھ زیادہ دیر نہ لگے۔ وطن عزیز کے بعض علاقے جنسی بے راہ روی کے میدان میں بدنام کئے گئے ہیں اور معاملہ”بداچھا بدنام برا“ والا بھی ہوسکتا ہے۔ چند سال پہلے مجھے اور شریں پاشا کو ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے پاکستان کے چاروں صوبوں کا دورہ کرنا پڑا۔ واپسی پر فلم کی اداکاراؤں اور انتظامیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اپنے آپ کو کن علاقوں میں سب سے زیادہ محفوظ محسوس کیا تو جواب کے مطابق صوبہ سرحد پہلے نمبر پر، بلوچستان دوسرے نمبر پر اور سندھ تیسرے نمبر آیا۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ملک کے سب سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ صوبے کو کون سا نمبر ملا ہوگا۔
تازہ ترین