(چوتھی قسط)
مسجد قبلی
مسجد قبلی بھی مسجد اقصیٰ کا حصہ ہے اسے سیدنا فاروق اعظمؓ کے حکم سے 15 ہجری (636میلادی)میں تعمیر کیا گیا لیکن اس کی تزئین و آرائش دور اموی میں عبدالملک بن مروان نے شروع کی اور تکمیل اس کے بیٹے الولید کے ہاتھوں 705میں مکمل ہوئی ۔اس کی تزئین و آرائش بہت دفعہ ہوتی رہی ۔ اس کے گنبد میں قرآنی آیات کی اتنی خوبصورت خطاطی اورآرائش کی گئی ہے کہ جب تک مسجد کے فرش پرلیٹ کر اسے نہ دیکھا جائے بھرپور نظارہ نہیں کیاجاسکتا ۔اس مسجد کے فرشی ہال میں کم وبیش دو ہزار نمازی نمازادا کرسکتے ہیں۔ فجرکی نماز میں بالعموم دوتین صفیں ہوتی ہیں ، باقی دن کی نمازوں میں آٹھ سے دس صفیں ہوجاتی ہیں۔اس مسجد کے دائیں طرف اذان اور امام کی استراحت کی جگہ، اورچھوٹے چھوٹے دفاتر ہیں جبکہ بائیں طرف مسجد عمر، محراب زکریا اور حجلہ مریم ہے۔ مسجد قبلی میں ساری نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ نماز جمعہ میں بھی مرکزی اجتماع یہیں ہوتا ہے۔ مرد حضرات تو قبلی مسجد میںنمازپڑھتے ہیں جب کہ خواتین قبۃ الصخراء میں،ہم سب ہی افراد مسجد کی اگلی صفوں کی جانب بڑھے جب کہ خواتین مسجد کی بائیں طرف ان کیلئے مخصوص حصے میں نماز ادا کرنے چلی گئیں ۔ہم نے تحیۃ المسجد اورچند نوافل اداکیے۔ مسجدکی اگلی صفوں میں لوگ قالین پر اور کچھ لوگ کرسیوں پر بیٹھ کر تلاوت و اذکار میں مشغول تھے اور ہلکی ہلکی تلاوت کی آوازسے مسجد گونج رہی تھی ۔تھوڑی دیر میں فجرکی اذان ہوگئی ، فجرکی سنتوں کے تھوڑی ہی دیر میں پونے پانچ بجے نمازکیلئے اقامت کہی گئی۔ نمازفجر الشیخ عبدالکریم الزربائی نے پڑھائی ۔حسن اتفاق سے انہوں نے سورہ الاسراء کی پہلی چند آیات کی فلسطینی لہجے میں تلاوت کی۔ زندگی میں پہلی بار مسجداقصی میں نماز فجرادا کرنے اور قرآن کی مقدس متعلقہ آیات (جن میں مسجد اقصیٰ کاذکر ہوا)کی تلاوت سننے کا موقع ملا ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، کیا جذبات ہوئے ہوں گے ؟۔خاص طور پر جب ان آیات کا ترجمہ ، تذکرہ اور پس منظرہمارے سامنے موجود تھا۔ نماز کے بعد امام صاحب سے ملاقات ہوئی ۔تعارف ہوا انہوں نے فلسطین آمد پر بے پناہ خوشی کااظہار کیا۔ امام عبدالکریم الزربائی مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے پرانی یادیں تازہ کیں ۔ ہمارے گروپ میں برمنگھم سے گلزار احمدشیخ صاحب جنہیں سبھی اہل قافلہ’’ مودی صاحب‘‘ کہتے تھے کیونکہ ان کی شباہت نریندر مودی صاحب سے ملتی تھی ۔ ان کی زوجہ بھی انہیں شیخ مودی کہتی تھیں ) انہیں تصویراور وڈیوبنانے کا فن خوب آتاہے ، انہوں نے امام صاحب کے ساتھ میری تھوڑی سی وڈیو بھی ریکارڈ کرلی تھی سورج نکلنے تک ہم مسجد اقصیٰ کے حسن کے مختلف زاویے دیکھنے اورپھر روزمرہ اذکار میں مشغول رہے اوراشراق پڑھ کر مسجد سے باہر نکلے توقبۃ الصخراء کے عقب سے سورج نکلنے کاعجیب نظارہ تھا۔امام صاحب کی معیت میں ہم نے یہ مناظر موبائل کے کیمرے میں محفوظ کرلیے ۔، مزید ملاقاتوں کے وعدے پران سے رخصت لی ۔اور باب حطہ ہی سے نکل کرواپس ہوٹل آگئے ۔ناشتہ کے بعدبارہ بجے تک آرام کیا۔
مسجدعمرؓ، حجرہ مریم ،اور محراب زکریاکی زیارت
ظہر سے ایک گھنٹہ پہلے تیارہوکر ہم سبھی احباب قافلہ پھر بیت المقدس کی جانب روانہ ہوئے ۔ نمازظہرکے بعد ساتھیوں کومسجداقصیٰ کی تفصیلی زیارت اور تاریخ سے آگاہ کرنا تھا۔ اس کیلئے میں نے کچھ مواد اکٹھا کرلیاتھا۔ نمازکے بعد مسجداقصیٰ یا مسجد قبلی کی بائیں جانب متصل چھوٹی سی جگہ جسے مسجدعمریا مصلی عمرکہا جاتاہے، روایت کے مطابق فتح بیت المقدس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہاںنمازادا کی تھی ، وہاں بیٹھ کرمیں نے ساتھیوں کوبریفنگ دی ۔انہیں فتح بیت المقدس کی تفصیل سنائی ، اور اس بابرکت جگہ کی اہمیت سے مطلع کیا۔ وہاں سے ایک کھڑکی سے باہر جھانکا تو مسجد اقصی کی دوسری جانب کافی دور تک یہودیوں کی سرگرمیاں نظر آئیں ، مسجد اقصیٰ کے نیچے سے نام نہاد ہیکل سلیمانی برآمد کرنے کی غرض سے جو کھدائی کی جارہی ہے وہ نظر آئی۔ بہت پہلے ہم نے اس کھدائی کے بارے سنا تھا۔ پھر خاموشی طاری ہوگئی ہمیں لگاکہ عالم اسلام کے احتجاج و اضطراب کی وجہ سے کھدائی بند کردی گئی ہے لیکن وہ تو اب بھی جاری ہے، پھرہم مسجد عمر کے متصل دوسرے حجرہ مریم میں آگئے جس کے بارے میں سورہ آل عمران کی آیت37-39 میں ذکر آیاکہ ان کے خالوحضرت زکریاعلیہ السلام نے انہیں اپنی کفالت میں لے کر رکھاتھااور اس کے ساتھ ہی متصل محراب زکریا ہے۔جس کے بارے قرآن میں ذکر آیا کہ جب حضرت مریم سے غیبی رزق بارے حضرت زکریا نے پوچھا تو اس معصوم بچی نے جواب دیا{ ھو من عنداللہ} کہ یہ رزق اللہ کی جانب سے ہے یہ سن کرحضرت زکریاعلیہ السلام نے وہاں دعا مانگی تھی ۔{ھنالک دعا زکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذریۃ طیبۃ انک سمیع الدعاء}…اس جگہ کو محراب زکریا کہا جاتاہے ۔پھر ہم مصلی مروانی دیکھنے گئے۔
مصلی مروانی
مسجداقصی کے بائیں پہلو میں مصلی مروانی کے نام سے ایک وسیع وعریض پرہیبت دالان ہے ،جوکئی ہزار مربع میٹر ( ایک محتاط اندازے کے مطابق 600×500 مربع میٹرپر مشتمل ہے )جسے مسجد اقصیٰ کے نیچے جبل الہیکل کی جنوبی دیوار کی بنیاد پر بنایاگیاتھا۔ ساڑھے بارہ میٹر نیچے ستونوں کی بارہ قطارہیں۔یہ بھی مسجداقصیٰ کا حصہ ہے بلکہ اسے مسجداقصی کازیریں حصہ کہاجائے تو زیادہ مناسب ہے، بڑے بڑے پتھروں سے بنا ہوا ۔ لگتاہے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت جنوں نے جو پتھر فراہم کیے تھے وہ یہاں لگائے گئے ہیں ۔بلکہ شاید انہی نے لگائے تھے اور لگتاہے کہ مسجد اقصی کایہ حصہ جنوں نے ہی تعمیر کیاتھا ۔ اور شایدرسول اللہ ﷺ نے جس مسجداقصی میں نماز ادا کی اگر وہاں کوئی اس دور میں عمارت تھی تو وہ یہیں ہوسکتی ہے ، جس پر امتداد زمانہ کے باعث پردہ پڑا رہا۔ واللہ اعلم ۔جس کامین گیٹ معراج کی رات گیٹ کیپر کی کوشش کے باوجود بند نہیں ہوسکا تھا۔جس کاذکر حافظ ابونعیم اصفہانی نے دلائل النبوۃ میں کیا۔ اس کاپہلا حصہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے ( کتاب بدء الوحی حدیث نمبر۷)
’’قیصر روم ہرقل ایرانیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد بیت المقدس آیاتواسے رسول اللہ ﷺ کا خط ملا جس میں اسے اسلام لانے کی دعوت دی گئی تھی اس نے آنحضور ﷺ کے بارے مزید معلومات حاصل کرنے غرض سے مکے سے آنے والے کسی معتبرشخص کودربار میں حاضرکرنے کاحکم دیا ،ان دنوں سردارمکہ ابوسفیان ایک تجارتی سفر کی بناپر یروشلم میں موجود تھا، شاہ اور ابوسفیان کے مابین دس سوالات وجوابات ہوئے ۔ان میں سے ایک سوال یہ تھاکہ اس شخص (مدعی نبوت حضرت محمد ﷺ) نے کبھی جھوٹ بولا ۔ابوسفیان نے نفی میں جواب دیالیکن اتنا کہہ دیا کہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ انہی دنوں یروشلم میں راتوں رات آئے اور انبیاء کی امامت کی ابوسفیان کاخیال تھا کہ میرایہ کہناہرقل کو آںحضور ﷺ کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا کرسکتاہے، ابوسفیان تو رخصت ہوا لیکن مجلس میں موجود شام کے لاٹ پادری ابن ناطور… نے کچھ کہنے کی اجازت چاہی اس نے کہا’’ابوسفیان کی اس بات پر اسے ایک رات کا واقعہ یاد آگیا ہے ، وہ بولا کہ ایک رات میں نے کنیسہ کابڑادروازہ بندکرنے کی کوشش کی لیکن وہ باجود زور لگانے کے بند نہ ہوسکا میں نے خیال کیاکہ شاید دروازے میں کوئی فنی خرابی پیدا ہوگئی ہو صبح کسی کاریگر کولے کر آؤں گا۔چنانچہ ساری رات دروازہ کھلا رہا۔اگلی صبح میں نے دروازے کو معمول کی طرح درست پایا ۔ لاٹ پادری نے کہاشاید یہی وہ رات ہو جس میں محمد ﷺ یہاں تشریف لائے ہوں کیونکہ ایساواقعہ کسی نبی کی آمد پر ہی ہوسکتاہے ۔ میر اناقص خیال ہے کہ مسجداقصیٰ کایہ حصہ اس وقت موجودتھاجسے آجکل مصلی مروانی کہاجاتاہے ، ممکن ہے یہ اس عمارت کا حصہ ہو جسے حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جنوں سے تعمیر کرایاتھا۔ اس کا جتنا حصہ بخت نصر وغیرہ سے تباہ ہوسکاوہ کر دیا گیایہ چونکہ زیریں حصہ تھااس لیے اس کی دست برد سے محفوظ رہاہوگا۔جس کی بعد میں عبدالملک نے مرمت کروائی اور اسے ایک مسجد کی شکل دی ۔اللہ ہی بہتر جانتاہے ،کیونکہ فلسطین کی تاریخ ہزاروں سال سے ہے اس کو میں نے کئی دن کی ادھیڑ بن کے بعد ترتیب دیاہے ۔مصلی مروانی میں موجود زمین دوز ہال گنے جائیں تو ان کی تعداد 16بنتی ہے ۔ اسی کے زاویہ میں حجرہ مریم ، اور محراب زکریاکے علاوہ حضرت داؤد علیہ السلام اورحضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کئی ایک تاریخی جگہیں ہیں جن میں سے بعض کوجنگلہ لگا کر اور بعض کوچبوترا بنا کر محفوظ کیاگیاہے ( جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں پہلے بھی کوئی عمارت تھی)کہاجاتاہے کہ خلیفہ عبدالملک نے دینی تعلیم کی غرض سے اپنے والد مروان کے نام سے بنوائے تھے انہوں نے تعمیر و مرمت کی ہے ، عربی میں انہیں رواق کہا جاتاہے ۔
عیسائیوں کا سفاکانہ حملہ
بارھویں صدی عیسیوی میں جب عیسائیوں نے القدس پر قبضہ کیا تو حسب عادت ( جیسا کہ سپین میں کیاتھا) انہوں نے مسلمانوں کی اتنی خون ریزی کی کہ یروشلم کی گلیاں تین تین فٹ خون میں ڈوب گئیں ۔سترہزار بے گناہ مسلمان شہیدکئے گئے ،ان کی کثیر تعدادمصلی مروانی میں پناہ گزیں تھی ۔عیسائیوں نے ان پناہ گزینوں کو بھی نہ بخشااور سبھی کو تہہ تیغ کردیا۔اورانہوں نے اس مصلی مروانی کوجنگی گھوڑوں کیلئے اصطبل اور اسلحہ خانہ میں بدل دیا اورمشہورکیاگیاکہ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کا اصطبل تھا ۔یہ بھی روایت ہے ،کہ یروشلم کے بادشاہ بالڈون( نے بھی اسے بطور اصطبل استعمال کیاتھا( جیسے ہندوستان میں سکھوں نے پنجاب پر قبضے کے بعدبادشاہی مسجد، چینیانوالی مسجد اور اس طرح کی کئی تاریخی مساجدکو اصطبل بناڈالاتھا)یہ وہ دور ہے جس میں خاتم النبین ﷺکی عرب میں بعثت ہوئی تھی ۔اور آپ ﷺ کو معراج کا سفر درپیش ہوااوراسی مسجد میں آپ نے انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور اسی مسجدسے آپ آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے تھے ۔1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب یروشلم کوفتح کیاتومصلی مروانی کا استعمال بطور اصطبل بند کرکے اسے سیل کردیا۔کیونکہ شاید نمازیوں کی تعدادکم تھی اس لیے اس کو لائق استعمال بنانے کی طرف توجہ نہیں دی اور پھر تقریباً سات سو سال تک یہ بند رہا۔1996 میں نمازیوں کی کثرت کی بنا پر اردنی حکومت نے اس کی دوبارہ بطور مسجد بحالی کا بیڑہ اٹھایااوراگست1996سے اس کی مرمت و تزئین کاکام شروع کردیاگیا الحرکۃ الاسلامیہ کے قائدالشیخ رائد صلاح کی اپیل پربیت المقدس ، الخلیل اور العقبہ سے ہزاروں نوجوان اس مبارک کام میں ہاتھ بٹاتے رہے اورمارچ 2001 تک اس کی تعمیرنواورتزئین مکمل ہوگئی ۔
اب یہ پورا ایریا قیمتی قالینوں اور فانوسوں سے سجا ہوا ہے۔ چھت کااوپروالا حصہ ٹائلوں سے ڈھانپ دیا گیاہے۔ جنوبی سائڈ میں لکڑی کا خوبصورت محراب بنایاگیا۔یہودیوں نے ہیکل کی تعمیر کے ارادے سے جنوبی دیوارکے بالمقابل باہرکی طرف سیڑھیاں بنادی تھیں تاکہ کسی وقت بھی اس زمین دوز عمارت میں داخل ہوا جاسکے ۔ مصلی مروانی کی شمالی جانب دوبڑے دروازے بندکردیے تھے ۔باہرسے مٹی اور پتھروں کاڈھیرلگتاتھا۔اسرائیلیوں نے نیچے جو کھدائی کی اس سے جنوبی دیوارکا استحکام خطرے میں پڑگیا تھا ۔اسی لیے اس کھدائی کوقبیحہ، عمل الرھیب الملعون( عمل قبیح) جیسی اصطلاحوں سے تعبیرکیاجاتاہے ۔ یہودیوں کی اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے ان بنددروازوں کودوبارہ بحالی کیلئے پھرتحریک شروع ہوئی اور 2002میں یہ دروازے پھر سے معرض وجود میںآ گئے ۔
مصلی مروانی میں جگہ جگہ حفظ و تدریس قرآن کے حلقات قائم ہیں، جہاں مسلمان بچے قرآن کریم کی تعلیم و تحفیظ میں مشغول ہیں ۔ بڑی وسیع لائبریری بھی ہے۔ نمازکیلئے ایک بڑاہال تیار کیا گیا مسجدکااوپر والا حصہ بھی شامل کرلیاجائے تومسجد اقصیٰ میں7000نمازی بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں ۔رمضان المبارک میں تراویح کیلئے یہ وسیع وعریض مسجد بھی تنگ دامانی کاشکوہ کرتی ہے۔جس کی وجہ سے مسجد اقصی کے پہلو میں عارضی آہنی مظلات کافی بڑے ایریا میں نصب کر دئیے گئے ہیں ۔موجودہ تزئین و آرائش1996میں مسجد اقصیٰ وقف کے تحت ہوئی ۔مسجد اقصی کے آئمہ و خطباء اور مدرسین و مؤذنین کی تنخواہیں بھی مقرر ہیں جنہیں اردنی حکومت کی سرپرستی میں قائم وقف اداکرتاہے ۔چونکہ ارض فلسطین کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ مجموعی طور پر یہ علاقہ ہمیشہ آباد رہا بلکہ غالباً تاریخ میں سب سے زیادہ آبادی اسی علاقے میں رہی ہے ۔ انبیاء کرام کی بڑی تعداد اس علاقے میں مبعوث ہوئی ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے توتاریخ کے اس مدو جزر میں سے بہت ہی کم چیزیں محفوظ رہی ہیں ۔میں نے مصلی مروانی کے نام سے تمام فائلیں ،پروگرام، سفر نامے ویکیپیڈیا چھان مارے مجھے کہیںسے کوئی تسلی بخش مواد نہیں ملا ۔اسی لئے میں نے اپنی دانست میں اسے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتے ہیں۔ مصلی مروانی کو چھان پھٹک کر تفصیلی وزٹ کے بعد ہم باہرنکلے تووضو کیلئے بنائی گئی جگہ سے پانی پیا اور ساتھ بوتلوں میں بھی بھرلیا کہ ابھی مسجد اقصی کی تفصیلی زیارت کرنی ہے چنانچہ ہم مصلی مروانی سے دائیں طرف بڑھنا شروع ہوگئے۔باب السلسلہ تک یہ ہموارگزرگاہ ہے۔ آئیے ہم قبۃ الصخراء والے پلیٹ فارم پر چلتے ہیں۔ (جاری ہے)