• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرب میں اونٹ، دلہن کا جہیز اور بدو شیخ کی دولت کا معیار ہے

آج سے چار پانچ دہائیوں قبل سعودی عرب کے صحرا کی زندگی انتہائی سخت ترین تھی، اس میں ’بدو‘، اس کا’ اونٹ‘ اور’ کھجور کا درخت‘ سب سے برتر نظر آتے ہیں۔

عرب جو پانی اور چراگاہوں پر نسلوں تک جنگیں لڑا کرتے تھے، ایک مرتبہ کسی کو اپنا مہمان بنا لیتے تو اس کی خاطر گھر کا آخری اثاثہ تک فروخت کردیتے تھے۔

مہمان کی خاطر سب سے توانا اونٹ ذبح کرنا میزبانی کا لازمہ خیال کیا جاتا تھا۔

حاتم طائی جو قبیلہ بنی طے کے سردار کا بیٹا تھا اور بعد میں خود سردار بنا، اس کے متعلق مشہور ہے کہ اپنی نو عمری کے زمانے میں ایک مرتبہ اس نے 6 راہ گیروں کے لیے اپنے باپ کے چھ اونٹ ذبح کر دیئے جس پر اس کےباپ نے اسے مار پیٹ کر گھر سے نکال دیا تھا۔

ایک اونٹ کیا حیثیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ صرف اسی شخص کو ہوگا، جسے کبھی صحرا میں زندگی گزارنے کا اتفاق ہوا ہو۔ عرب اونٹ کو اپنا ہم نفس قرار دیتے ہیں۔ ’بدو‘ بالخصوص اونٹ کا طفیلہ ہے۔ اونٹ کے بغیر صحرا میں زندگی گزارنا ممکن نہیں ۔

اونٹ کا گوشت عربوں کی مرغوب غذا ہے، اونٹ صحرا کا جہاز ہے، دلہن کا جہیز اور بدو شیخ کی دولت کا معیار ہے۔

اونٹ کا دودھ بدو کا دل پسند مشروب ہے، کیونکہ پانی مویشیوں کے لیے بچاکر رکھا جاتا تھا ، اس لیے اونٹ کا دودھ پیاس بجھانے کے کام بھی آتا تھا، اونٹ کی کھال سے عرب لباس تیار کیا کرتے تھے، اس کے بالوں سے خیمے بناتے۔

عرب اونٹ گرمیوں میں بغیر پانی کے 5دن اور سردیوں میں 25دن تک باآسانی رہ سکتا ہے۔ پہلے زمانے میں جزیرہ نما عرب اونٹوں کی پرورش کا اہم مقام اور اونٹ بانی عربوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھا۔

عرب معاشرے میں اس جانور کی اسی اہمیت کے باعث عربی زبان میں اونٹ کی مختلف اقسام اور اس کی عمر کے مختلف حصوں کے لیے ایک ہزار سے زیادہ الفاظ موجود ہیں۔

 

تازہ ترین