• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامہ نیاز فتح پوری۔ اردو اکادمی بہاولپور....علامہ اقبال کا فلسفہ زندہ ہے..نقارخانے میں…جمیل الدین عالی

فروری 1922ء میں جب علامہ نیاز فتح پوری نے ترک زبان کی مشہور شاعرہ ”نگار بنت عثمان“ کی انقلابی شاعری سے متاثر ہو کر ”نگار“ جاری کیا تو ان کی نظر سنجیدہ علمی موضوعات پر مرکوز تھی نگار کے ذریعے انہیں تخلیقی و تحقیقی قوتوں کے آزادانہ استعمال کا موقع مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افسانہ، ناول، صحافت، مقالہ نگاری، تنقید، مکتوبات نگاری اور انشاپردازی سب میں ان کاسکّہ چلنے لگا۔ اب وہ ادیب نہ رہے، ادیب ساز بھی ہوگئے اور ان کی علمی اور ادبی شخصیت اتنی وقیع اور واضح ہوگئی کہ ادبی تاریخ کی ترتیب و تدوین میں ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ نیاز کا قلم، انیسویں صدی کی پہلی دہائی سے لے کر 1966ء کے اوائل تک کم و بیش ساٹھ سال چلتا رہا جس زمانے میں ”نگار“ منظر عام پر آیا اس وقت علمی رسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور علمی و تحقیقی مضامین لکھنے والوں کی بھی بہت کمی تھی، یہ نگار کا کمال ہے کہ اس نے لوگوں میں لکھنے کے شوق کو جلادی اور اہل قلم پیدا کئے جن کی علمی طبقے نے بڑی پذیرائی کی۔ نگار محض ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک رجحان اور ایک قدر ہے۔ میں علامہ نیاز کو زبان دان کی حیثیت سے بھی بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اس کا یہ بھی بڑا کمال ہے کہ اس کے جو قواعد و ضوابط طے کئے تھے ان کے عزیز برادر ڈاکٹر فرمان فتح پوری اب تک ان کے پابند نظر آتے ہیں وہ اسی آب و تاب کے ساتھ آج بھی پابندی سے شائع ہورہا ہے اور علمی طبقے میں مقبول ہے۔ محترم نیاز فتح پوری کی طرح عزیزی ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی حساس طبیعت کے مالک ہیں انہوں نے اپنے وقت کے تمام علمی، فکری اور ادبی مسائل و موضوعات پر نہ صرف توجہ دی ہے بلکہ عوام اور خواص دونوں کو ان موضوعات پر سوچنے کی طرف بھی مائل کیا ہے۔ نگار کے بیشتر خاص نمبر اپنے اپنے موضوعات پر بے مثال و منفرد قرار پائے اور علمی و ادبی حلقوں میں سراہے گئے۔ پاک و ہند کی جامعات کے نصابات میں شامل رہے اور کئی کئی بار شائع ہوئے۔ نیاز کے فکر و فن کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لئے نگار پاکستان 1963ء کا نیاز نمبردیکھنا چاہئے یہ نیاز کی زندگی میں دو جلدوں میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں رشید نظیری صاحب اور امیر عارفی صاحب نیاز پرتحقیقی کام کر کے ہندوستانی جامعات سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی لے چکے ہیں۔ ڈاکٹر امیر عارفی کا مقالہ انجمن ترقی اردو دہلی سے 1967ء میں شائع ہوچکا ہے نگار پاکستان کی جانب سے علامہ نیاز فتح پوری یادگاری لیکچر 2010ء بہ اشتراک وفاقی جامعہ اردو ہمدرد فاؤنڈیشن، انجمن ترقی اردو پاکستان اور دائرہ ادب و ثقافت انٹرنیشنل کراچی کے زیر اہتمام وفاقی جامعہ اردو (گلشن اقبال کیمپس) میں منعقد ہوا۔ (ناچیز اپنی علالت کی وجہ سے اس اہم یادگاری تقریب میں شرکت سے محروم رہا)۔ اس موقع پر اپنے صدارتی خطبے میں صدر انجمن ترقی اردو پاکستان آفتاب احمد خان نے کہا کہ علامہ نیاز فتح پوری نے1992ء میں جب ”نگار“ جاری کیا تو ان کی نظر سنجیدہ علمی موضوعات پر مرکوز ہوگئی نگار کے ذریعے انہیں تخلیقی اور تحقیقی قوتوں کے آزادانہ استعمال کا موقع مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے افسانہ، ناول، صحافت، مقالہ نگار، تنقید، مکتوب نگاری اور انشاء پردازی سب میں ان کاسکّہ چلنے لگا۔ ادبی تاریخ کی ترتیب و تدوین میں ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے نام کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس سال نگار نے اپنا سالنامہ طنز وظرافت نمبر شائع کیا ہے۔ اردو شاعری میں طنز و ظرافت کا بہت بڑا حصہ رہا ہے، اس سے ہر عہد کی عکاسی ہوتی ہے۔ شیخ الجامعہ کراچی ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ اس وقت ہم میں ذہنی خلاقی کی رمق دور دور تک نظر نہیں آتی بلکہ دانشورانہ قلاشی نظر آتی ہے۔ آج علامہ نیاز جیسے دانشورانہ اور حکیمانہ ذہن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیاز سے فرمان تک خیر و برکت ہم تک پہنچ رہی ہے۔ انہوں نے اس عہد کو جگمگا دیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹرپیرزادہ نے کہا اعتراف کرنا پڑے گا کہ فرمان فتح پوری بڑی عقیدت و محبت سے اس جلسے کا اہتمام کرتے اور ہر سال ایک وسیع حلقے کا تعاون حاصل کر لیتے ہیں وہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں اور ابھی تک نہایت فعال ہیں۔ ان کے اس سالانہ یادگاری خطبے میں پاکستان اور شہر کراچی میں ایک منفرد موقع فراہم ہوتا ہے جس میں خالصتاً علمی اور ادبی حوالے سے سنجیدہ گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ یہ مواقع ایسے جلسوں میں علمی اثاثے کے طور پر مل جاتے ہیں اور یہ تقریب بھی اپنی اثر انگیزی کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی جس کا اعادہ آج کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت ہم سے سوال کرتا ہے اور جواب کی توقع کرتا ہے ورنہ وقت اپنے فیصلے خود کرلے گا۔ آج اقوام عالم میں فکری اور سماجی تحریکیں چل رہی ہیں اس کے لئے دانشورانہ اور حکیمانہ ذہن کی ضرورت ہے جو ان کا ادراک رکھتا ہو کیوں کہ جب وہ رائے رکھے گا تو اختلاف کے پہلو بھی سامنے آئیں گے ایسی فکر اور عالمانہ طرز استدلال علامہ نیاز کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کے تمام اہل دانش علامہ نیاز کے علمی کارناموں سے بخوبی واقف ہیں وہ ایک قاموسی شخصیت تھے۔ ان کا مزاج شاعرانہ اور فلسفیانہ تھا انہوں نے خاموش مکالمے کا آغاز کیا۔ ان کا ذہن اور دانش آج بھی زندہ ہیں پروفیسر سحر انصاری نے یہ بھی کہا کہ علامہ نیاز فتح پوری نے اس دور کے ادبی ماحول کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ہمیں اس سب سے استفادے کی ضرورت ہے اور یہ بھی ان کا احسان ہے کہ خرد افروزی اور مباحث کی طرف متوجہ کیا۔ عزیزی سحر انصاری نے پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ نگار کی باقاعدہ اشاعت ان کی مکمل اور بھرپور توجہ سے ہی ممکن رہی ہے۔ عزیزی سحر انصاری کے بعد ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے اپنے اساسی خطبے میں کہا کہ علامہ نیاز رومانی تحریک کے اہم فکشن نگار تھے۔ بعد کی ادبی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے کچھ اثرات ترقی پسند تحریک کے ادیبوں اور جدید طرز کے لکھنے والوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے لئے زیادہ سنجیدگی سے تحقیق و تنقید کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے مزید کہا کہ نیاز فرسودہ روایات، ذہنی دیوالیہ پن اور تنگ نظری کے مخالف تھے اور نئے زمانے کے قیام کے آرزو مند تھے اور بعد میں ترقی پسندوں میں بھی یہی جذبہ کار فرما ہوا۔ دراصل نیاز کے بعد ترقی پسند اور جدید دور دونوں میں حیات و ممات کے مسائل پیدا ہوگئے اور زمینی حقائق بدل گئے مگر نیاز ہمارے فکشن کی جڑوں میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر ظفر عالم ظفری نے نیاز کے اسلوب پر سیرحاصل گفتگو کی اور کہا کہ ان کے شہ پارے ان کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے کہا کہ نیاز کی تحریروں میں ان کا بے باکانہ انداز خوب نظر آتا ہے اور اس کے ذریعے ان کی بالغ نظری اور نکتہ نظری کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ اردو افسانوں میں رومانیت مختلف طریقوں سے سامنے آتی ہے نیاز ی رومانیت مجسم جذبہ ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں علامہ نیاز فتح پوری چیئر قائم ہونی چاہئے۔ تمام مقررین کی تقریروں کے بعد کراچی یونیورسٹی کے رئیس کلیہ فنون ڈاکٹر ظفر اقبال نے ان حضرات کی تقریروں کا تنقیدی تجزیہ کیا اور کہا کہ نیاز جس رو میں فکشن کی طرف مائل ہوئے اس دور میں فکشن کا بہت بڑا سرمایہ نہ تھا۔ انہوں نے عوام کو رومان پیش کر کے متحرک کردیا، ان کے علمی معاملات میں فکر انگیز باتیں سامنے آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے فکر انگیز مقالات میں علامہ نیاز کو رومانیت زدہ ثابت کیا گیا ہے جبکہ ان کے ہاں رومانیت سے ہٹ کر جمالیات بھی ہیں۔ علامہ نیاز نے بہت سے موضوع ایسے چھیڑے جن میں اختلاف بھی تھے تنگ نظر معاشرے تھے، طے شدہ سانچے تھے لیکن انہوں نے خالص عقل پسندی کی بات کی۔ سالانہ تقریب میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان، ڈاکٹر طاہر تونسوی، ظفر عالم ظفری، ڈاکٹر جاوید اقبال کو ایوارڈ بھی دیئے گئے۔(جاری ہے)
تازہ ترین