آئندہ سال یعنی 2018میں پاکستان میں فی کس پانی کی دستیاب مقدار میں 809 کیوسک کمی آجائے گی حالانکہ2005میں کھاریاں گریژن میں ایک میٹنگ کے دوران شرکا واپڈا کی طرف سے پیش کئے گئے حقائق میں آگاہ کیا گیا کہ 2025 تک فی کس میسر پانی کی مقدار مزید کم ہوکر809کیوسک لیٹر ہوجائے گی جبکہ1951میں یہ مقدار5207کیوسک لیٹر تھی۔
وطن عزیز میں آبادی میں اضافے کے مقابلے میں میسر پانی کی شرح کا موازنہ کیا ہے ،ماہرین کے اندازے کے مطابق2025میں آبادی کا تخمینہ 20کروڑ 87لاکھ بتایا گیا تھا لیکن2017کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی20کروڑ70لاکھ ہوچکی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ فی کس پانی کی دستیاب مقدار میں کمی جو2025میں809کیوسک لیٹر ہونا تھی وہ اگلے سال2018میں ہی ہوجائے گی۔
قومی اسمبلی کے رکن ہمایوں سیف اللہ خان نے جنگ کو بتایاکہ20ویں صدی کے دوران دنیا بھر میں درمیانے سائز کے تقریباً46ہزار ڈیم تعمیر ہوئے ان میں ہمارے دو پڑوسی ممالک چین میں 22ہزار اور بھارت میں تقریباً4291ڈیم تعمیر ہوئے اس کے مقابلے میں پاکستان میں70ڈیم تعمیر کئے گئے جن میں سے دو بڑے(تربیلہ و منگلا) اور68درمیانے چھوٹے سائز کے ڈیم تھے۔
ایک زمانے میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا تھاجہاں پر پانی کی کثرت تھی اب یہ صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ اب پاکستان کا شمار ان ممالک میں کیا جاتا ہے جن کو پانی کی قلت اور اس حوالے سے شدید دبائو کا سامنا ہے۔
اس کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ 1990سے2015کے عرصے میں پاکستان میں پانی کی فی کس میسر مقدار2187کیوسک لیٹر سے کم ہوکر 1300 کیوسک لیٹر رہ گئی ہے۔ دنیا کی آبادی میں ہر سال80ملین افراد کا اضافہ ہونے لگا ہے جس سے تازہ پانی کے موجودہ ذخائر پرحکومتی دبائو آنے لگا ہے۔
گلوبل واٹر پارٹنرشپ اور اکیسویں صدی میں پانی کے لئے عالمی کمیشن کے سابق چیئرمین اسماعیل فرگلیڈن نے1995میں پہلی دفعہ خبردار کیا تھا کہ ہم پانی جیسے قیمتی اور اہم وسیلہ کی مناسب تنظیم کے سلسلے میں اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی لانے میں ناکام ہوگئے۔
مستقبل میں مختلف اقوام کے درمیان جنگیں صرف پانی کے مسئلے پر ہی ہونگی آبی وسائل کی قلت کے نتیجے میں مستقبل میں تنازعات میں اضافہ کا خدشہ ہے ایسے میں آبادی میں اضافہ مسئلوں کو مزید سنگین بنائے گا۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے 2011میں اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ تازہ پانی کے حصول کے لئے اور ان کے ذرائع تک رسائی کیلئے مستقبل میں جنگیں ہوسکتی ہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں آبی ذرائع میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے مسئلے پر مختلف ریاستوں کے درمیان مسلح تصادم کی نوبت آنے کا اندیشہ ہے۔
ہمایوں سیف اللہ خان نے کہا کہ وہ بھی ان ماہرین کی آراء اور سفارشات کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے اگر ہم نے اپنے ملک میں بڑھتے ہوئے آبی بحران کی طرف فوری طور سے توجہ نہ دی تو اس کے نتیجے میں ہم مشکلات ومسائل کا شکار ہوںگے۔