آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے تحت ملک کے دوسرے علاقوں کے بعد کوئٹہ میں بھی حالات اگرچہ بہت بہتر ہو گئے ہیں لیکن ارض وطن ہم سے قربانیاں مانگ رہی ہے۔ کوئٹہ میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں جمعرات کے روز ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس موٹر ٹرانسپورٹ اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن حامد شکیل صابر سمیت تین پولیس اہلکاروں کی شہادت اور آٹھ کا زخمی ہو جانا انتہائی افسوسناک واقعہ اور دشمن کی انتہائی بزدلانہ کارروائی ہے۔ خود کش حملہ آور نے ڈی آئی جی کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ اپنے گھر سے نکل رہے تھے۔ دوسری طرف دہشت گردوں نے خیبر ایجنسی کی وادی راجگال میں نئی قائم شدہ پاکستانی چوکیوں پر حملہ کیا جس سے پاک فوج کا سپاہی محمد الیاس شہید ہو گیا جبکہ پاک فوج کی جوابی کارروائی سے پانچ دہشت گرد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے دہشت گردوں نے افغانستان کے علاقے سے یہ کارروائی کی۔ ان دونوں واقعات کی کڑیاں افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوںسے جا کر ملتی ہیں جنہیں پاکستان اور افغانستان مشترکہ دشمن کی کمک حاصل ہے۔ بلوچستان پولیس بھی کچھ عرصہ سے ان دہشتگردوں کے نشانے پر ہے اور اس کے نتیجے میں مختلف واقعات میں اعلیٰ پولیس افسران، ایس پی، ڈی ایس پی، انسپکٹرز، سب انسپکٹرز اور اے ایس آئی سمیت 838 اہلکار اب تک شہید ہو چکے ہیں۔ حامد شکیل صابر بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے 25ویں اعلیٰ افسر اور چوتھے ڈی آئی جی ہیں۔ وہ 1968میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کی اور 1988میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بلوچستان میں بطور ڈی ایس پی بھرتی ہوئے۔ اس کے بعد ڈی ایس پی سٹی، صدر، ہیڈ کوارٹر، ڈی پی او چمن، قلعہ عبداللہ، ایس ایس پی و ڈی آئی جی آپریشنز، انویسٹی گیشنز، ایس ایس پی ٹریفک، اے آئی جی ڈویلپمنٹ کے عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے پسماندگان میں بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے سلسلے میں جس طرح پولیس کے افسران و اہلکار پاک آرمی کے شانہ بشانہ سرکرداں ہیں اور ملک کے طول و عرض میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں، صدر مملکت، وزیراعظم نے بجا طور پر پولیس کی ان کاوشوں اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزدلانہ کارروائیاں شکست خوردہ ذہنیت کی عکاس ہیں اور دشمن کی کوئی بھی بزدلانہ کارروائی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے عزم اور جدوجہد کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قوم کی آواز بنتے ہوئے کہا کہ ڈی آئی جی حامد شکیل جیسی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ صورتحال یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی کامیابی کے بعد بچے کھچے دہشت گرد بلوچستان میں جمع ہو گئے ہیں افغانستان سے بھی بلوچستان میں یہ لوگ داخل کئے جارہے ہیں جوکہ بڑے تجربہ کار، تربیت یافتہ اور بھارت سے مل کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پیش پیش ہے۔ یہ بات بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے اس اعتراف میں منظر عام پر آچکی ہے کہ کراچی اور بلوچستان بھارتی دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں سکیورٹی فورسز ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہیں اور بڑی حد تک امن و امان کے قیام میں انہیں کامیابی ملی ہے غیر ملکی اسلحہ اور سرمایہ ملنے کی وجہ سے دہشت گردوں کا مکمل طور پر صفایا نہیں ہو سکا۔ انہیں مقامی علیحدگی پسندوں کی شہ بھی حاصل ہے لیکن ملک کو اس وقت بہترین سول و فوجی قیادت میسر ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی فورسز پوری طرح وسائل سے لیس ہیں۔ لہٰذا مکمل بیخ کنی کیلئے ان عوامل کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے جس کی کڑیاں ان کے سہولت کاروں اور حواریوں تک پہنچتی ہیں اس کیلئے متعلقہ اداروں کو سرجوڑ کر سوچنا ہوگا کہ وہ کونسے عناصر ہیں جو سرکوبی کے باوجود بار بار سر اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔