• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے جدید دور میں مصنوعات کی تشہیر کیلئے نمائشوں کا انعقاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس مقصد کیلئے دنیا کے مختلف ممالک میں قومی و بین الاقوامی سطح کی نمائشیں باقاعدگی سے منعقد کی جاتی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک خصوصاً جرمنی میں تقریباً ہر ہفتے ایک نمائش کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں تمام قومی و بین الاقوامی کمپنیاں حصہ لیتی ہیں اور دنیا بھر کے خریدار ان نمائشوں میں شرکت کیلئے جرمنی کا رخ کرتے ہیں۔ اسی رجحان کو دیکھتے ہوئے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (TDAP) پچھلے کئی سالوں سے ’’ایکسپو پاکستان‘‘ کا انعقاد کررہا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی نمائش 2005ء میں منعقد کی گئی تھی جس کے بعد سے کچھ سالوں کے علاوہ ’’ایکسپو پاکستان‘‘ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
ایسی صورتحال میں جب پاکستان کی ایکسپورٹس جو کئی سالوں سے تنزلی کا شکار ہیں، میں بہتری لانے کیلئے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے ’’دسویں ایکسپو پاکستان 2017ء‘‘ کا انعقاد کیا جو 9 سے 12 نومبر تک جاری رہی۔ اس بین الاقوامی نمائش میں شرکت کیلئے بیرون ممالک میں تعینات پاکستان کے کمرشل قونصلرز اپنے ہمراہ تقریباً 70 ممالک کے 800 سے زائد ممتاز خریداروں اور مندوبین کو حکومت پاکستان کی دعوت اور میزبانی پر ’’ایکسپو پاکستان‘‘ میں لائے جن کے اخراجات جو تقریباً 20 کروڑ روپے بنتے ہیں، TDAP نے برداشت کئے۔ اس کے علاوہ بیشتر غیر ملکی فیڈریشنز، چیمبرز اور بزنس کونسلز کے وفود بھی ایکسپو میں ٹی ڈیپ کے مہمان تھے۔ نمائش کا افتتاح وفاقی وزیر تجارت و ٹیکسٹائل پرویز ملک نے گورنر سندھ محمد زبیر، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور سیکرٹری تجارت یونس ڈھاگہ کے ہمراہ کیا۔ ایکسپو پاکستان میں 600 سے زائد پاکستانی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی نمائش کیلئے اسٹالز لگائے جس میں دستکاری کی چھوٹی چیزوں سے لے کر پاکستان میں بننے والی کاریں اور دیگر اشیاء کو ڈسپلے کیا گیا تھا تاکہ یہ غیر ملکی مندوبین میں متعارف کروائی جاسکیں۔
افتتاحی روز بیرون ملک سے آئے ہوئے مندوبین، پاکستان میں متعین غیر ملکی سفیروں اور ملک کی ممتاز کاروباری شخصیات کے اعزاز میں موہٹہ پیلس کراچی میں ’’ایمرجنگ پاکستان‘‘ کے نام سے تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکت کیلئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خصوصی طور پر کراچی تشریف لائے۔ تقریب میں گورنر سندھ محمد زبیر، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، وزیر دفاع خرم دستگیر، وزیر تجارت پرویز ملک، مفتاح اسماعیل، فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل، ایس ایم منیر، سیکرٹری تجارت یونس ڈھاگہ اور شہر کی ممتاز شخصیات کے علاوہ میں اور میرے بھائی اختیار بیگ بھی موجود تھے۔ دوران تقریب غیر ملکی مندوبین کو پاکستان کے بارے میں مثبت آگاہی دی گئی اور پاکستانی ملبوسات پر مبنی فیشن شو بھی پیش کیا گیا۔
’’ایکسپو پاکستان‘‘ کیلئے حکومت نے فول پروف سیکورٹی انتظامات کئے تھے اور اس مقصد کیلئے 4 ہزار سے زائد مسلح سیکورٹی اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ ایکسپو میں شریک ہر غیر ملکی وفد کی بس کے پیچھے ایک پولیس موبائل متعین تھی جس میں سوار چاق و چوبند مسلح سیکورٹی اہلکاروں کو دیکھ کر غیر ملکی مہمانوں میں یہ تاثر ابھرا کہ اتنی زیادہ سخت سیکورٹی کہیں کسی خطرے کی علامت تو نہیں؟ بہتر ہوتا کہ غیر ملکی مہمانوں کو خفیہ (Covert) سیکورٹی فراہم کی جاتی اور دوسرے ممالک کی طرح غیر ملکی مہمانوں کی آمد و رفت کو خفیہ کیمروں کی مدد سے مانیٹر کیا جاتا۔ نمائش کے دوران سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ایکسپو سینٹر جانے والے تمام راستوں کو عام پبلک کیلئے بند کردیا گیا تھا جس کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بیرون ملک میں عموماً نمائشی ہال کے قریب ہی ہوٹلز ہوتے ہیں جہاں مہمانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے تاکہ اُنہیں نمائش میں آنے جانے میں آسانی ہو اور سڑکوں کو بند نہ کرنا پڑے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کراچی ایکسپو سینٹر کے احاطے میں وسیع و عریض زمین خالی پڑی ہے جس پر ہوٹل تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹر سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے جس سے مستقبل میں سیکورٹی اور آمد و رفت کے اخراجات میں کمی واقع ہوگی۔
نمائش کے دوران ایکسپو سینٹر کے ہال نمبر 2 میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس(FPCCI) نے غیر ملکی وفود سے خصوصی میٹنگز کیلئے کیمپ آفس قائم کیا تھا اور میں فیڈریشن کے نائب صدر کی حیثیت سے بیشتر وقت وہاں موجود رہا۔ بیرون ملک سے آئے ہوئے وفود سے فرداً فرداً ملاقات کرتے ہوئے میں نے مندوبین پر واضح کیا کہ ’’ایکسپو پاکستان‘‘ کے انعقاد اور غیر ملکی مندوبین کو نمائش میں مدعو کرنے کا مقصد مغربی میڈیا کے پاکستان کے بارے میں پھیلائے گئے منفی تاثر کو زائل کرنا ہے، پاکستان سرمایہ کاری کے لحاظ سے دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی موزوں ترین ملک ہے جہاں منافع کی شرح دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ دوران ملاقات کچھ غیر ملکی وفود نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان آنے سے قبل یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان صرف چاول اور کپڑا ہی ایکسپورٹ کرتا ہے لیکن یہاں آکر اندازہ ہو اکہ پاکستان مینوفیکچرنگ کے شعبے میں کتنی ترقی کرچکا ہے۔
’’ایکسپو پاکستان‘‘ میں برطانیہ میں پاکستان کے کمرشل قونصلر ساجد محمود راجہ کی سربراہی میں برطانوی بزنس مینوں پر مشتمل 20 رکنی تجارتی وفد اور مراکش میں پاکستان کے کمرشل قونصلر وقاص عظیم کی سربراہی میں مراکشی بزنس مینوں پر مشتمل 10 رکنی تجارتی وفد جس میں پاک مراکش جوائنٹ بزنس کونسل کے اراکین بھی شامل تھے، نے شرکت کی۔ ’’ایکسپو پاکستان‘‘ کے دوران پاک مراکش جوائنٹ بزنس کونسل کا اجلاس فیڈریشن ہائوس کراچی میں منعقد ہوا جس کی صدارت پاکستان میں مراکش کے سفیر محمد کرمون نے کی۔ اجلاس میں پاکستان کی جانب سے میں نے اور مراکش کی جانب سے کونسل کی ہم منصب مریم علاوی کے علاوہ دونوں ممالک کے کونسل اراکین نے شرکت کی۔ اجلاس میں پاکستان اور مراکش کے مابین باہمی تجارت میں اضافے، بزنس مینوں پر مشتمل وفود کے تبادلے اور دونوں ملکوں میں سنگل کنٹری نمائشوں کا انعقاد جیسے اقدامات زیر بحث آئے۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے سفارتخانے جوائنٹ بزنس کونسل اور فیڈریشن کی سفارشات پر بزنس مینوں کو ویزوں میں سہولت فراہم کریں گے اور ثقافت کے فروغ کیلئے ثقافتی وفود کا تبادلہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مشترکہ وزارتی کمیشن کا اجلاس جو کئی سالوں سے تعطل کا شکار ہے، جلد از جلد منعقد کیا جائے۔ واضح ہو کہ پاکستان اور مراکش کے درمیان ترجیحی تجارتی معاہدہ زیر غور ہے۔ دوران اجلاس مجھے پاک مراکو جوائنٹ بزنس کونسل کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ ’’ایکسپو پاکستان‘‘ کے دوران میں نے پاکستان میں مراکش کے سفیر محمد کرمون، یوکے پاکستان چیمبرز آف کامرس کے صدر محمد صدیق اور برطانوی وفد کے اراکین کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر عشایئے کا اہتمام کیا جس میں ٹی ڈیپ کے سابق سی ای او ایس ایم منیر اور فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل نے بھی شرکت کی۔
’’دسویں ایکسپو پاکستان‘‘ کا انعقاد ایک اچھا اقدام ہے جس پر وفاقی وزیر تجارت پرویز ملک اور ٹی ڈیپ حکام مبارکباد کے مستحق ہیں۔ 4 روزہ نمائش کے دوران غیر ملکی خریداروں نے تقریباً 1.2 ارب ڈالر کے آرڈرز کی بکنگ کی جبکہ نمائش کے انعقاد سے پاکستان کے بارے میں منفی تاثر کا خاتمہ بھی ہوا۔ 800 غیر ملکی مندوبین اور خریدار جب پاکستان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوکر اور اپنی آنکھوں سے پاکستان میں امن و امان کی بہتر صورتحال دیکھ کر اپنے وطن واپس لوٹیں گے تو وہ ملنے والوں کو پاکستان اور پاکستانی عوام کے بارے میں اچھے تاثرات بیان کریں گے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ پاکستان سرمایہ کاری اور کاروبار کیلئے انتہائی سازگار ملک ہے۔

تازہ ترین