• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب جانتے ہیں کہ کن حالات میں معزول وزیراعظم نوازشریف کے خلاف 1999ء میں طیارہ اغوا کیس بنایا گیا اور کس طرح انہیں سزا دلوائی گئی۔ بظاہر تو یہ سزا کراچی کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے دی تھی مگر دراصل یہ اسے بے انتہا دبائو میں لا کر دلوائی گئی تھی۔ اس وقت کی پرویز مشرف حکومت نے یہ سارا ڈرامہ کیا تھا تاکہ نوازشریف کو مشرف کو عہدے سے برطرف کرنے کا مزہ چکھایا جائے۔ یہ بات اس وقت بھی سابق وزیراعظم بار بار کہتے رہے کہ انہیں ہر صورت میں عدالت سے سزا دلوائی جائے گی اور یہ سب کچھ ہمیں بھی معلوم تھا۔ اب جبکہ نوازشریف کیلئے دوبارہ ایسا ہی ماحول پیدا کیا گیا ہے تو انہوں نے وہی اپنی پرانی بات یاد کرائی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ان کا احتساب کہیں اور سے کنٹرول ہو رہا ہے ، انہیں سزا ہو نہیں رہی بلکہ دلوائی جارہی ہے، ان کی نظر ثانی درخواست پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ دراصل احتساب کورٹ کیلئے پیغام ہے کہ انہیں کسی صورت بھی چھوڑنا نہیں، نظر ثانی فیصلے میں ایسے ریمارکس دیئے گئے جیسے ان کے سیاسی مخالفین دیتے ہیں اور وہ عدالتوں کے دہرے معیار کے خلاف اپنی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ یقیناً سابق وزیراعظم کے ساتھ ہونے والے سلوک کی وجہ سے ان کے لہجے میں تلخی آئی ہے ۔ مگر مقبول ترین سیاست دان ہونےکے ناطے ان کے پاس چارہ بھی کیا ہے۔ کیا وہ اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر چیخ وپکار بھی نہ کریں؟ پہلے ہی وہ بقول نامی گرامی وکیل عاصمہ جہانگیر کے عدالت عظمیٰ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہے اور اپنے آئینی اور قانونی حقوق کو بھی استعمال نہیں کیا۔ پاناما کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت سے لے کر آج تک کے واقعات پر غور کیا جائے تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اس سارے کھیل کا مقصد صرف اور صرف نوازشریف کو بطور وزیراعظم برطرف کرنا اور انہیں مختلف مقدمات میں الجھا کر سیاست سے نکالنا ہے۔ سماعت کے دوران ججوں کے ریمارکس، وٹس ایپ کالوں، جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس میں دو خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی شمولیت، جے آئی ٹی کی ساری کارروائی اور اس کے دوران پیش ہونے والے لوگوں کے ساتھ اس کا سخت ترین رویہ، مانیٹرنگ جج کی تعیناتی اور نیب کی ’’بے مثال‘‘ پھرتیوں کو سامنے رکھا جائے تو عام فہم بندے کو بھی سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ یہ سب کچھ کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔
نا سمجھ ہیں وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں اور کوشش بھی کرتے ہیں کہ نوازشریف یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بالکل خاموشی اختیار کرکے گھر بیٹھ جائیں، احتساب عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں ،سزا ملنے کے بعد جیل چلے جائیں اور اس طرح سیاست سے اپنا بوریا بستر خود ہی لپیٹ لیں۔ نہ صرف ہماری بلکہ دنیا کی تاریخ میں کبھی بھی کوئی سیاستدان اپنے خلاف ہونے والے عدالتوں اور سول اور فوجی حکومتوں کے جائز یا ناجائز اقدامات پر خاموش نہیں رہے بلکہ ہمیشہ احتجاج کرتے رہے ہیں۔ آج جب سابق وزیراعظم مشکلات کا شکار ہیں تو پیپلزپارٹی کو عدالتوں کا بڑا احترام یاد آگیا ہے اور اس کا بار بار کہنا ہے کہ نوازشریف جو کچھ کر رہے ہیں یہ توہین عدالت ہے اور وہ اداروں میں ٹکرائو چاہتے ہیں۔ تاہم آج بھی یہ جماعت ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتوں کی طرف سے دی گئی پھانسی کو عدالتی قتل کہتی ہے ۔ نوازشریف تو ابھی تک اس حد تک نہیں گئے۔ بینظیر بھٹو شہید اپنے خلاف بنائے گئے مقدمات سننے والی عدالتوں کو کینگروکورٹس بھی کہتی رہیں۔ آصف علی زرداری کا بھی بار بار یہی فرمانا ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ ان کا احتساب نہیں ہو رہا تھا بلکہ ان سے انتقام لیا جارہا تھا۔ دوسری طرف عمران خان جو نوازشریف کی بطور وزیراعظم برطرفی کے بعد بار بار دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر نون لیگ نے عدالتوں پر نکتہ چینی بند نہ کی تو وہ عدالت عظمیٰ کے دفاع کیلئے سڑکوں پر آجائیں گے۔ عدالت کے ان سب سے بڑے محافظ کے اپنے رویے پر غور کریں تو صاف ظاہر ہے کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ (سوائے افواج پاکستان) نہیں ہے جن کو انہوں نے اپنی سیاست کی وجہ سے لاتعداد بار نشانہ نہ بنایا ہو۔ ذرا یہ بھی دیکھیں کہ وہ خود عدالتوں کا احترام کیسے کرتے ہیں ۔ اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت تین سال سے ان کے خلاف چار سنگین فوجداری مقدمات کی سماعت کر رہی ہے اور اس کے بار بار طلب کرنے اور وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے باوجود بھی وہ اب کہیں جاکر پیش ہوئے ہیں۔ جونہی وہ عدالت میں نمودار ہوئے تو جج صاحب نے کوئی سوال جواب نہیں کیا اور فوراً ان کی ضمانت منظور کرلی۔ عمران خان کا یہی رویہ الیکشن کمیشن کے ساتھ رہا ہے جہاں چار سال سے ان کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس چل رہا ہے اور وہ وہاں پیش ہونے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ جس طرح اس کیس کو لٹکایا گیا ہے یہ بذات خود انصاف کے پورے نظام پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک سیاست دان کے ساتھ کیا رویہ ہے اور دوسری طرف نوازشریف کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے اور ہر طرف بڑی جلدی ہے کہ سابق وزیراعظم کو سزا دلوائی جائے تاکہ مشن کامیاب ہو جائے۔ عدالت عظمیٰ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران نوازشریف اور ان کے بچوں کی وہ درگت بنائی گئی جس کی مثال پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی مگر سپریم کورٹ میں ہی عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف مقدمے کے دوران ججز کے ریمارکس بالکل تندوتیز نہیں تھے۔ اب یہ خواہش رکھنا اور امید لگانا کہ نوازشریف اپنے ہونٹ سی لیں اور احتجاج نہ کریں احمقانہ بات ہے۔
خدا را بلوچستان پر مزید توجہ دیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے ایک بار پھر اہل وطن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چند روز میں ہی ایک ڈی آئی جی ٹارگٹ کلنگ اور پھر ایک ایس پی ان کے بیٹے اور پوتے کی شہادت کا مقصد پولیس فورس کو بددل کرنا اور اس میں خوف پیدا کرنا ہے تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف مہم سے دستبردار ہو جائے۔ اس کے علاوہ اسی دن ہی 15 نوجوانوں جن کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا اور جو بہتر مستقبل کیلئے بیرون ملک جانا چاہ رہے تھے کو بلوچستان میں شہید کر دیا گیا۔صرف مذمت کافی نہیں ہے۔
مذمتیں بہت ہو چکی ہیں اور قوم نے بہت لاشیں اٹھا لی ہیں۔ ایجنسیوں کو سارے کام چھوڑ کر بلوچستان پر توجہ کرنا چاہئے باقی کام جن پر وہ اپنی انرجی صرف کر رہی ہیں بعد میں ہوتے رہیں گے پہلے اس صوبے کے حالات کو ٹھیک کرنا ترجیح ہونی چاہئے۔ بلوچستان میں چاہے ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ ہیں یا ڈاکٹر مالک اس عہدے پر براجمان تھے صوبے کے تمام سیکورٹی کے معاملات سیکورٹی اداروں کے پاس ہیں جن میں سویلین حکومت کا کوئی دخل نہیں ہے لہذا ذمہ داری بھی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ہی بنتی ہے کہ وہ خون کی ہولی کھیلنے والے دہشت گردوں کو کچلے۔ رہی بات بھارتی مداخلت کی اس میں کوئی شک وشبہ نہیں تو اس کا خاتمہ بھی ایجنسیوں کو ہی کرنا ہے نہ کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو۔ ایک عرصے سے انڈیا بلوچستان میں تباہی پھیلانے میں ملوث ہے اور زیادہ تر یہ کام افغانستان کے راستے کررہا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے اداروں کے علم میں ہے۔

تازہ ترین