• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہ محمود قریشی کے ”جرائم“...جرگہ…سلیم صافی

ایسا نہیں کہ موجودہ حکمران عقل سے عاری ہیں۔ لیکن شاید ان کی عقل کو خودغرضی، تعصب، تکبر اورخوف کے زنگ لگ گئے ہیں۔ تبھی تو انہیں وفادار نہیں بلکہ چاپلوس درکار ہیں اور اہلیت و صلاحیت کے حامل ساتھی نہیں بلکہ کرپٹ مسخرے ان کے منظور نظر ہیں۔ تبھی تو قمرزمان کائرہ کی جگہ فردوس عاشق اعوان لے رہی ہیں۔ اعتزاز احسن کی جگہ رحمان ملک چہیتے بنے ہوئے ہیں اور شاہ محمود قریشی کی جگہ حناربانی کھر اور صغریٰ امام کو متمکن کیا جارہا ہے۔
شاہ محمود قریشی سرخرو ہوئے۔وجہ صاف ظاہر ہے ۔ بے توقیری میں نیامقام پیدا کرنے والی حکومت کا حصہ ہوکر بھی وہ قابل عزت اور محترم قرار پائے۔ کرپٹ ٹولے میں رہ کر بھی وہ کرپشن سے دور رہے ۔ وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھتے رہے اور اب ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر پاکستانی ہونے کا ثبوت دے کر انہوں نے وزارت کی قربانی دے دی۔ امام مسجد کے گھر پیدا ہونے والا پانچ وقتہ نماز پڑھے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی لیکن ڈانسنگ کلب میں مزدوری پر مجبور نمازی بنا رہے تو یہ عزیمت کی بات ہے۔ قریشی صاحب ثانی الذکر کے نقش قدم پر گامزن رہے۔ امریکیوں نے دھمکیاں دیں اوراپنوں نے ضمیرفروشی کا درس دیالیکن قریشی صاحب نے اپنے اسلاف کے د ستار کا پاس اور پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھنا ضروری سمجھا ۔ ضمیر فروشی کے اس دور میں وطن فروشوں کا ساتھی ہوکر بھی پاکستانی بن کر سوچنا اور عہدوں کولات مارنا ۔ یہ منفرد سرخروئی قریشی صاحب کے حصے میں آئی جو انہیں مبارک ہو۔
وفاداری معیار ہو تو شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کے کم وفادار نہیں۔ وزیراعظم گیلانی کی طرح ان کے خلاف کرپشن کا کیس رجسٹرڈ تھا اور نہ ان کی کوئی اور کمزوری پرویز مشرف کے ہاتھ لگی ۔ انہیں عہدوں کی پیشکش کی لیکن وہ بے نظیر بھٹو کے وفادار رہے۔ پارٹی کا حکم صادر ہوا تو ضلعی نظامت کا انتخاب لڑا اورناظم بن گئے۔ بی بی نے اشارہ کیا تو استعفیٰ دے کر قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ جیت ناممکن تھی تو پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے لئے انہیں امیدوار بنایا ۔پھر جب سچ مچ پی پی پی کو وزارت عظمیٰ مل گئی تو زرداری صاحب نے اس ہما کے بٹھانے کیلئے قریشی کی بجائے گیلانی کے کاندھے کو مناسب سمجھا ۔ چاہتے تو امین فہیم کی طرح ناراض ہوسکتے تھے یا پھر ناہید خان کی طرح باغی لیکن وہ وقار کے ساتھ ساتھ نبھاتے رہے۔ حلقے کی سیاست کرنے والے وزارت خارجہ کو ترجیح نہیں دیتے لیکن زرداری صاحب نے خواہش ظاہر کی تو وہ بلاتامل تیار ہوئے ۔داخلی سیاست سے اپنے آپ کو یوں لاتعلق کیا اور اپنی وزارت میں یوں مگن ہوگئے کہ جیسے خارجہ امور کے سوا کوئی چیز جانتا ہی نہ ہو۔ زرداری صدر اور گیلانی وزیراعظم ہو ، ملک پاکستان ہو اور اس کی پالیسیاں عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کے شکنجوں میں پھنسی ہوئی ہوں تو وزیر خارجہ کیلئے اس ملک کی مارکیٹنگ کس قدر مشکل بن جاتی ہے لیکن پھر بھی شاہ محمود قریشی ، زرداری اور امریکہ کے سوا کم و بیش سب کی توقعات پر پورا اترے۔ بھارت کے دورے پر تھے کہ ممبئی کا واقعہ رونما ہوا، لیکن بھارتیوں کو ٹھنڈا کرانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر جب ڈٹ جانے اور آنکھیں دکھانے کا وقت آیا، تو ڈٹ بھی گئے اور آنکھیں بھی دکھائیں۔ یورپ جو پاکستان کا نام سننے کو تیار نہیں، اگر امریکہ کو بائی پاس کرکے ان دنوں پاکستان سے معاملہ کررہا ہے تو اس میں قریشی صاحب کی ذاتی کوششوں اور خدمات کا بھی دخل ہے ۔ چند سال قبل ہر معاملے میں پاکستان کوملزم ٹھہرانا حامد کرزئی کا مشغلہ اور ان کو مطعون کرنا پاکستان میں فیشن بن گیا تھا، آج اگر وہ حامد کرزئی پاکستانی کیمپ کا حصہ بن گئے ہیں تو دیگر عوامل کے علاوہ اس میں قریشی صاحب اور ان کے نامزد کردہ سفیر محمد صادق کی کاوشوں کا بھی کلیدی کردار ہے۔سعودی قیادت زرداری صاحب اور گیلانی صاحب سے نالاں ہے لیکن قریشی صاحب پھر بھی ربط ضبط کا واسطہ بنے رہے۔ ہم ہیلری کلنٹن کے ساتھ ان کے سرجوڑنے پر معترض تھے لیکن اب جب پاکستانی کی عزت و وقار کا مسئلہ آیا تو وہ سرپھوڑنے پر آمادہ ہوئے ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قریشی صاحب پاکستان ہی کی خاطر ہیلری اور دیگر امریکیوں کے ساتھ سرجوڑ کے بیٹھ رہے تھے۔
ہوا یوں کہ جب ریمنڈ ڈیوس نے تین پاکستانیوں کی جان لے لی تو امریکی سفیر نے شاہ محمود قریشی کو فون کیا۔ جلدی اس بات کی تھی کہ اگر ریمنڈ ڈیوس سے تفتیش ہوئی تو ان کی حقیقت سامنے آجائے گی اور لامحالہ یہ سوال بھی اٹھنے لگے گا کہ پاکستان میں اور کتنے ریمنڈ ڈیوس گھوم رہے ہیں؟ چنانچہ امریکی سفیر مطالبہ کرتا رہا کہ وزیرخارجہ فورا انہیں سفارتکار باور کراکر رہا کروادے۔ دیگر حکمرانوں کی طرح بلاتامل تعمیل کی بجائے قریشی صاحب نے ریکارڈ کی طرف رجوع کیا۔ اگلے دن ہیلری کلنٹن کا دھمکی آمیز فون آیا لیکن قریشی صاحب نے پاکستانی بن کر انہیں شائستہ اور سفارتی انداز میں جواب دیا کہ اب فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ وہ ایک وفادار اور تابعدار ساتھی کی طرح معاملہ صدر اور وزیراعظم کے پاس لے گئے۔ ان دونوں نے رحمان ملک کے ساتھ مل کر ان سے مطالبہ کیا کہ وہ کوئی حل نکال لیں۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ اگر وہ تصدیق کرلیں تووزارت داخلہ جعلسازی کرکے ان کی باقی دستاویزات کو برابر کرلے گا لیکن قریشی صاحب نے کہا کہ وہ اپنے موقف کو امریکی سانچے میں نہیں ڈھال سکتے۔ چنانچہ انہیں صدر اور وزیراعظم کی طرف سے ہدایت کی گئی کہ اگر وہ مسئلے کو حل نہیں کرسکتے تو پھر خود بھی خاموش رہیں اور اپنی وزارت کو بھی خاموش رکھیں۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ہمیں شک ہورہا تھا کہ شاید ان کی وزارت ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لئے خاموش ہے لیکن اب پتہ یہ چلا کہ درحقیقت اوپر سے ان کی زبان بندی کروائی گئی تھی۔ ہیلری کلنٹن نے میونچ میں ان کے ساتھ طے شدہ ملاقات احتجاجا منسوخ کردی لیکن وہ پھر بھی ٹھس سے مس نہ ہوئے۔ صدر اور وزیراعظم کی طرف سے قریشی صاحب کو بتایا گیا تھا کہ نئی کابینہ میں وہ دوبارہ وزیرخارجہ بنیں گے۔ قوم اور میڈیا کو بھی یہی توقع تھی۔ لیکن حلف برداری کی تقریب سے چند لمحے قبل انہیں بتایا گیا کہ وہ پانی و بجلی کی یا پھر کوئی بھی دوسری اہم وزارت لے لیں لیکن چونکہ امریکی ناراض ہیں ، اس لئے انہیں وزیرخارجہ نہیں بنایا جاسکتا ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر ان کی کارکردگی خراب ہے یا کرپشن کا الزام ہے تو پھر کوئی بھی فیصلہ پارٹی قیادت کا حق ہے لیکن اگر صرف اور صرف امریکہ کی ناراضگی کی وجہ سے ان کی وزارت تبدیل کی جارہی ہے تو پھر وہ کوئی دوسری وزارت بھی نہیں لیں گے اور وزارت کے بغیر ایک وفادار کی حیثیت سے پارٹی کے ساتھ وابستہ رہیں گے ۔
قریشی صاحب سرخرو ہوئے۔ وہ دکھی ضرور ہوں گے کیونکہ جس پارٹی کے ساتھ انہوں نے ہر موقع پر وفاداری نبھائی، اس پارٹی کی قیادت نے ان کے ساتھ امریکیوں کے حکم پر بے وفائی کا مظاہرہ کیا لیکن ان کا جراتمندانہ موقف ان کی سیاسی زندگی کو چار چاند لگانے کا باعث بنے گا۔ نقصان قریشی صاحب کو نہیں پاکستان کو ہوگا۔ امریکہ کے ساتھ معاملات نہایت نازک دور سے گزر رہے ہیں ۔ ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہونے کو ہے ۔ ان حالات میں ملک کو شاہ محمود قریشی کی ضرورت تھی کیونکہ موجودہ سیٹ اپ میں ان کا متبادل نظر آتا ہے اور نہ کوئی دوسرا اس بہتر انداز میں پاکستان کی نمائندگی کرسکے گا۔ یوں ناقابل تلافی نقصان ہوگا ۔ نہ جانے یہ کیسے پاکستانی حکمران ہیں جو قوم اور دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ اس ملک میں پاکستانیوں کے لئے پاکستانی بن کر سوچنا اور عمل کرنا جرم بن جاتا ہے۔
امریکہ آپ سے خوش ہو تو پھر آپ نااہلی ، بدعنوانی، بے وفائی اور ابن الوقتی کے ریکارڈ توڑ کے رکھ دیں تب بھی آپ وزیراور مشیر رہیں گے لیکن اگر آپ نے اسے ناراض کردیا تو پھر آپ قریشی صاحب کی طرح پارٹی اور قوم کے کتنے ہی وفادار کیوں نہ بنیں ، تب بھی آپ وزیر یا مشیر نہیں رہ سکیں گے ۔ شاہ محمود قریشی کو ہٹا کر موجودہ حکمرانوں نے یہی پیغام دیا ہے لیکن نہ جانے پرویز مشرف اور حسنی مبارک کے انجام اور ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پر پاکستانی قوم کے ردعمل میں پنہاں پیغام کو ہمارے حکمران کیوں نہیں سمجھ رہے۔ شاید اقتدار کے نشے اور امریکی خوف سے ان کی عقل کو زنگ لگ گئے ہیں۔ تبھی وہ اس واضح پیغام کو سمجھ نہیں رہے۔
تازہ ترین