• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف، گیلانی اور شاہ محمود قریشی!... آفتابیاں…آفتاب اقبال

نواز شریف نے اپنے تیس سالہ سیاسی کیریئر میں ویسے تو بیشمار ماٹھی تقریریں اور بیکار پریس ٹاکس کر رکھی ہیں مگر اس حوالے سے ان کی تازہ ترین کاوش اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ بدھ کے روز سینٹر جان کیری کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات کرنے کے بعد موصوف نے جو پریس کانفرنس کی وہ ہر لحاظ سے ناقص، بے ترتیب اور مایوس کن تھی۔
ہمارے احباب کی اکثریت اس موقع پر نواز شریف سے ایک انتہائی واضح اور دبنگ موقف کی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھی مگر نجانے کیوں ہمیں یقین تھا کہ ان کی ساری گفتگو گھبراہٹ، جھلاہٹ اور اکتاہٹ کا ملغوبہ ہو گی اور جو ہوا وہ ہمارے خیال میں ان توقعات کے عین مطابق تھا۔
نواز شریف سے ہم نے پہلے بھی دو ایک مرتبہ گزارش کر رکھی ہے کہ کم از کم کیمرے کے سامنے اپنا موڈ اور چہرہ نہایت خوشگوار رکھنے کی کوشش کیا کریں۔ آپ ایک خوش شکل آدمی ہیں مگر غصہ، گھبراہٹ، پریشانی یا خوف وغیرہ آپ کی ساری خوش گواری کو گہنا کے رکھ دیتے ہیں۔ مذکورہ تقریر اور پریس کانفرنس میں یہ چاروں عناصر بے حد نمایاں تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ہے ہی بلا کا گھمبیر مگر قیادت کے جوہر بحرانوں میں زیادہ اجاگر ہوتے ہیں۔
سابق وزیراعظم کی گفتگو اور لب و لہجے میں قومی یکجہتی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ حسب روایت اپنا کافی وقت انہوں نے وفاقی حکومت کے لتے لینے میں ضائع کر دیا حالانکہ آج اس کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آپ کی نسبت موجودہ وزیراعظم کی بات چیت کہیں زیادہ نپی تلی اور واضح رہی۔ پچھلے آٹھ دس روز میں گیلانی صاحب نے اس موضوع پر جب بھی لب کشائی کی، الفاظ کا چناؤ بہترین تھا اور لہجے میں گھبراہٹ کے آثار دور دور تک دکھائی نہ دیتے تھے۔ اب یا تو شاہ صاحب مشق سخن سے ہی اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے لہجے اور موڈ کو ہر قسم کے خارجی معاملات و جزیات سے یکسر عاری رکھتے ہیں اور یا پھر یہ کہ موصوف خود بھی ایک ملنگ صفت شخص ہیں کہ جنہیں چنداں پروا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ البتہ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کردار خصوصی طور پر قابل ستائش ہے۔ پچھلے دس دن میں ان کا سیاسی قد اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بڑے بڑے سورما اور جگادری ان کے سامنے بونے دکھائی دیتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے استثناء بارے ایک حیران کن موقف اختیار کر کے شاہ محمود نے اپنے آپ کو قومی تاریخ میں امر کر لیا ہے اور سچ پوچھیں تو وہ اس دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ایک محدود پیمانے پر ترتیب دیئے گئے سروے کے مطابق موصوف کا اپروول ریٹ (APPROVAL RATE) یعنی شرح مقبولیت موجودہ سیاستدانوں میں سرفہرست ہے۔ گزشتہ روز قریشی صاحب کا فون آیا تو ہم نے داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہوئے دلی مبارکباد پیش کی۔ ہم نے ازراہ تفنن یہ بھی کہا کہ ہمیں اس بات کا رنج ہے کہ اگلے چند روز ہمیں اخبار اور ٹی وی میں آپ کی تعریف کرنی پڑے گی۔ کہنے لگے ”میری تعریف صرف اسی صورت کرنا اگر تمہارا دل اور دماغ گواہی دیں کہ میں نے جو کچھ کیا صرف اور صرف پاکستان کے لئے کیا۔ میری تقریر کے الفاظ سنو اور اپنے آپ سے پوچھو کہ میں سچ کہہ رہا ہوں یا ڈرامہ کر رہا ہوں۔“ تقریر کے الفاظ سننا تو بہت دور کی بات ہے، پچھلے پندرہ برس کی ریاضت نے تو ہم جیسوں کو خاموشی سننے کا ہنر بھی سکھا دیا ہے اور قارئین کرام شاہ محمود کی حب الوطنی ایک ایسا سچ ہے جو اس کے چہرے سے جھلکتا ہے۔ اس کے لئے اسے بولنے کی چنداں ضرورت نہیں ہمارے کان اس سچ کی آواز اس کی خامشی میں بھی سن رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو وزارت خارجہ سے ہٹانا ایک حماقت تھی مگر موجودہ حالات میں انہیں اسی منصب پر واپس نہ لانا، اس سے بھی بڑی حماقت ہو گی اور حکومت کے پاس اب مزید حماقتوں کی گنجائش نہیں ہے۔
تازہ ترین