کراچی ( ٹی وی رپورٹ)جامعہ بنوریہ کراچی کے مفتی محمد نعیم نے کہا کہ اگر قصور قومی اسمبلی اور سینٹ کا ہے تو اس کی سزا عوام الناس کو نہ دی جائے ، دھرنے والوں کو اس پر غور کرنا چاہئے،فرید پراچہ رہنما مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی لاہور کا کہنا تھا کہ دھرنا دینے والے بھی عاشقان مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں اور تکلیف اٹھانے والے بھی عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے دھرنوں میں کبھی رکاوٹ نہیں ہوئی ٹریفک چلتی رہی ہے،عرفان صدیقی نے کہا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ یہ معاملہ سلجھ جائے ،طاقت کا استعمال ہے جس کی اجازت سپریم کورٹ ، آئین بھی دیتا ہے اور ہائیکورٹ نے بھی دیدی ہے۔وہ جیونیوز کے پروگرام ”آپس کی بات“میں گفتگو کر رہے تھے۔سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی ،مسلم لیگ ن کے رہنما رمیش کمار ،پیپلزپارٹی کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر نےبھی بات چیت میں حصہ لیا۔
مفتی نعیم نے کہا کہ ختم نبوت ہمارا دینی اساس ہے اس کے بغیر ہمارا یمان مکمل نہیں ہے،جو غلطی تھی کلاز میں وہ دور کردی گئی ۔ لیکن دھرنا جاری ہے مذاکرات کے باوجود بھی ڈیڈ لاک برقرار ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ دھرنے میں جو زبان و بیان ہے ، بات کرنے کا طریقہ اور جس طریقے سے تنقید کی جارہی ہے جو سخت اور قابل اعتراض زبان استعمال کی جارہی ہے لوگوں کی تضحیک بھی کی جارہی ہے اور ان کا راستہ بھی بند کردیا گیا اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملہ مذہبی ہے یا سیاسی یہ کہنا تھا جیو نیوز کے پروگرام ”آپس کی بات “ کا آغاز کرتے ہوئے میزبان منیب فاروق کا جس کے جوا ب میں پروگرام میں شریک سربراہ جامعہ بنوریہ کراچی کے مفتی محمد نعیم کا کہنا تھا کہ جب یہ معاملہ حکومت نے حل کردیا ہے اور جو چاہا اسی کے مطابق ترمیمی بل پاس کردیا گیا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کو ایک آدمی کی خاطر یہ تو قومی اسمبلی او رسینٹ نے کیا ہے اس کی ایک آدمی پر تو ذمہ داری نہ تھی اس طریقے سے اس بات کو لے کر اڑجانا اور پھر عوام الناس کو مفاد عامہ کی خاطر ،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کا مہینہ ہے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت کی جائے لیکن اس طریقے سے دھرنا دیکر مفاد عامہ کو نقصان پہنچانا ، ہمارا ملک اس وقت داخلی او رخارجی پالیسی کے اندر مشکلات میں گھرا ہو ہے ، بلوچستان کے حالات سامنے ہیں کیا کچھ ہورہا ہے ایسی صورت میں دھرنے والوں کو چاہئے کہ وہ مزید حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہ کریں ۔
معاملہ دھرنوں سے کبھی حل نہیں ہوتا ، اس کے لئے جو مذاکرات کمیٹی بیٹھی ہے وہی امید ہے اس کو حل کرلے گی لیکن عوام الناس کو تکلیف دینا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی ۔ اگر قصور قومی اسمبلی اور سینٹ کا ہے تو اس کی سزا عوام الناس کو نہ دی جائے ، دھرنے والوں کو اس پر غور کرنا چاہئے ۔ ملک کے حالات اس قابل نہیں کہ اس کو مزید برداشت کیا جائے۔ایسی زبان استعمال کرنا جس سے تضیحک ہورہی ہے،ووٹ حاصل کرنے کے لئے معاملے کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں ہے ، مذہبی معاملے کو مذہبی انداز میں حل کیا جائے ۔ انہوں نے تحریک لبیک سے اپیل کی کہ آپ کے جو مطالبات تھے وہ اگر مان لئے گئے ہیں توباقی معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرلیا جائے لیکن عوام الناس کو تکلیف دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ ان کا طریقہ کار درست ہے کیونکہ حکومت ایسے مانتی بھی نہیں اگر وہ یہ طریقہ کار اختیار نہ کرتے لیکن جب مان لیا گیا ہے تو ان کو بھی چاہئے کہ راستہ کھول دیا جائے ۔ حکومت سے کہوں گا کہ آپریشن اس کا حل نہیں حل مذاکرات ہیں ۔ منیب فاروق کے سوال کہ مسئلہ مذہبی ہے یا امن و امان کی کوئی صورتحال ہے پر عرفان صدیقی سینئر رہنما پاکستان مسلم لیگ ن کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ اس مسئلے کا ایک اور اینگل بھی ہے کہ جب کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والی ،دین کا نام لینے والی جماعتیں اپنے ووٹ کی تلاش میں نکلتی ہیں او راپنا ایک سیاسی کردار بھی متعین کرلیتی ہیں تو پھر تیسرا پہلو بھی آجاتا ہے جسے سیاسی پہلو بھی کہتے ہیں تو یہ انتظامی بھی ہے ، مذہبی بھی اور کسی حد تک سیاسی بھی ۔ اس سے جو کچھ راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں پر بیت رہی ہے وہ بھی ڈھکی چھپی کہانی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پیر کو ایک اہم بیٹھک ہوئی ہے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علمائے اکرام سے جس میں زیادہ تر تعداد ان علمائے کرام کی تھی جن کی دھرنا دینے والے تحریک کے ساتھ ذہنی اور مسلکی قرابت تھی ہماری ان کے ساتھ گفتگو یہاں ختم ہوتی ہے کہ انہیں اب اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ قانون مکمل طو رپر ان کی خواہش کے عین مطابق ہم آہنگ ہوگیا ہے آئین کے اندر پہلے بھی وہ بات موجود تھی اب بھی موجود ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یہ نہیں چاہتی کہ یہاں پر کوئی اس طرح کا واقعہ ہو جائے کہ لال مسجد یا ماڈل ٹاؤن کا سانحہ جیسا کوئی واقعہ نہ ہوجائے ۔ انہوں نے کہا کہ آپشن دو ہیں ایک یہ کہ یہ مذاکرات کا سلسلہ جو جاری رکھتے ہوئے حل نکالا جائے اور دوسرا طاقت کا استعمال ہے جس کی اجازت سپریم کورٹ ، آئین بھی دیتا ہے اور ہائیکورٹ نے بھی دیدی ہے لیکن اس کے نتائج پھر ریاست اور معاشرے دونوں کو برداشت کرنے پڑیں گے اور وہ لوگ جو اذیت سے گزر رہے ہیں اس صورتحال میں پھر وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں کہ ہاں جی آپ کریں لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ یہ معاملہ سلجھ جائے ۔ فرید پراچہ رہنما مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی لاہور کا کہنا تھا کہ دھرنا دینے والے بھی عاشقان مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں اور تکلیف اٹھانے والے بھی عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔