پاکستان میں فتح اللہ گولن کو ترکی ہی کے حوالے سے جانا اور پہچانا جاتا ہے اور ابھی تک کئی حلقوں کی جانب سے ان کی پذیرائی کی جا رہی ہے لیکن جب ترکی ہی میں ان کو دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے تو ہمیں پاکستان میں بھی فتح اللہ گولن کو دہشت گرد قرار دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ترکی اور پاکستان دو ایسے برادر اور دوست ممالک ہیں جن کی دوستی اور برادرانہ تعلقات کی دنیا بھر میں مثال دی جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی میں چند سال قبل تک رجب طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) اور فتح اللہ گولن کی جماعت یا تحریک حذمت آپس میں بڑی شیرو شکر تھیں۔ ایردوان کی آق پارٹی کو برسر اقتدار لانے میں گولن کی تحریک نے بھی بڑا نمایاں کردار ادا کیا تھا لیکن حالات نے اس وقت پلٹا کھانا شروع کیا جب ایردوان نے اپنی وزارتِ عظمی کے دورمیں ترکی بھر میں ٹیوشن سینٹرز (درس خانے جو کہ ایک کاروبار کا روپ اختیار کرچکے تھے اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے تقریباً تمام ترک طلبا ان ٹیوشن سینٹرز میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے) بند کرنے اور ملک میں یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے امتحانی نظام تبدیل کر نے کا اعلان کیا تھا۔ فتح اللہ گولن کے صرف ترکی بھر ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے تقریباً140 ممالک میں پندرہ سو کے قریب اسکول اور کالج موجود تھے جن کو حکومت ترکی کی درخواست پر گولن تحریک سے لیتے ہوئے حکومت ترکی کی وزارتِ تعلیم کی نگرانی میں دے دیا گیا یا دینے کا سلسلہ جاری ہے اور کئی ایک ممالک میں تو مکمل طور پر فتح اللہ گولن کے ان اسکولوں پر مکمل طور پر پابندی لگادی گئی ہے۔
فتح اللہ گولن کوپاکستان میں سب سے پہلے پاک ترک اسکول اور بعد میں حذمت تحریک کی بدولت شہرت حاصل ہوئی اور پھر حذمت تحریک نے پاکستان کے مختلف اخباری نمائندوں، کالم نگاروں، اینکر پرسن، این جی اوز کے نمائندوں اور مختلف اداروں خاص طور پر اسکولوں کے نمائندوں کو بڑی باقاعدگی سے ترکی مدعو کرتے ہوئے پاکستانی عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی اور یوں اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کر لی۔ ترکی کی سیر کے بعد ان کالم نگاروں نے فتح اللہ گولن اور حذمت تحریک کی شان میں بڑے بڑے قصیدے لکھے۔
فتح اللہ گولن کون ہے؟ گولن اپریل سن1941میں ترکی کے مشرقی صوبے ارضِ روم میں پیدا ہوئے اور یہاں ہی سے انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مذہبی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے ترکی کے محکمہ مذہبی امور (سرکاری محکمہ ہے جو ملک میں تمام مساجد کی دیکھ بھال، خطبات کا جانچ پڑتال اور اماموں کی تعیناتی جیسے امور سرانجام دیتا ہے) میں ملازمت حاصل کرتے ہوئے امام کے طور پر فرائض ادا کرنا شروع کردئیے اور اس دوران انہوں نے مذہب سے متعلق50 کتابیں تحریر کر ڈالیں اور پھر1981ء میں اس عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ تاہم بعد میں انہوں نے رضاکارانہ طور پر وعظ دینے کے ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔28فروری 1999ء میں ملک میں پوسٹ ماڈرن مارشل لا ( فوج نے خود پیچھے رہ کر نجم الدین ایربکان حکومت کا تختہ الٹ دیا) کے دور میں امریکہ میں پناہ لےلی۔ امریکہ نے ترکی میں اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے گولن تحریک کی ہر لحاظ سے حمایت اور امداد کو جاری رکھا اور امریکہ ہی کی پشت پناہی کی وجہ سے اس تحریک نے چند سالوں میں دنیا بھر میں اسکول قائم کرتے ہوئے اپنی اہمیت کو منوا لیا۔ آق پارٹی کے قیام سے قبل ہی گولن تحریک اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑی ہو چکی تھی۔ اگرچہ فوج اس دور میں گولن کی تمام حرکات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھی اور اس تحریک کے گرد گھیرا تنگ کرچکی تھی لیکن یہ تحریک اپنے آپ کو فوج کے شکنجے میں پھنسنے سے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی حالانکہ فوج مرحوم وزیراعظم بلنت ایجوت اور وزیراعظم سلیمان دیمرل کو اس تحریک کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں متنبہ کرچکی تھی لیکن ان دونوں رہنماؤں نے غیرممالک میں بڑی تعداد میں ترک اسکول موجود ہونے کی بنا پر ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا۔ تاہم بعد میں عدلیہ کی جانب سے ان پر جتنے بھی مقدمے دائر کیے گئے ان میں سے کسی ایک میں بھی کوئی جرم ثابت نہ ہو سکا جس پر گولن کو رہا کردیا گیا اور اس کے بعد وہ مستقل طور پر امریکہ آباد ہوگئے۔
فتح اللہ گولن کے چالیس سال تک ساتھ دینے والے قریبی ساتھیوں میں سے لطیف ایردوان (رائٹر) اور قادر مصر اولو (تاریخدان مصنف) تو دعویٰ کرچکے ہیں کہ فتح اللہ گولن حوجہ نے مختلف ادوار میں مختلف روپ اختیار کیے رکھا کبھی وہ مہدی ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں تو کبھی مسیح اور کبھی پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مخالفین، فتح اللہ گولن کی صحبت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ فتح اللہ گولن نے اپنے ارض روم میں قیام کے دوران اپنے پیروکاروں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بہت بڑے ہال میں فرمایا تھا کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے ان سے بات چیت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کائنات کو میں نے حضرت محمدﷺ کے لئے تخلیق کیا ہے اور تمہارے لیے (فتح اللہ گولن) جاری رکھا ہوا ہے۔ مخالفین مزید الزام لگاتے ہیں کہ فتح اللہ گولن ہمیشہ اس بات کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں کہ حضرت محمد ﷺہر ہفتے ان سے باقاعدگی سے ملاقات کیا کرتے ہیں اور ان سے دنیا اور ترکی کے امور کے بارے میں مشورے سےآگاہ کرتے رہتے ہیں (گولن کے حامیوں کے مطابق یہ سب پروپیگنڈا ہے)۔
فتح اللہ گولن نے ترک فوج (جو سیکولرازم کی محافظ سمجھی جاتی ہے) کے اندر اپنے پیروکاروں کو اس طریقے سے شامل کیا کہ کسی کو اس کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی اگرچہ محکمہ پولیس میں فتح اللہ گولن کے پیروکاروں کی بھر مار تھی لیکن فوج کے افسران بھی گولن کے پیروکار بن جائیں گے، یہ کسی نے سوچا تک نہ تھا۔ گولن اور ایردوان کی دوستی جب دشمنی میں تبدیل ہو گئی تو گولن کے ترک بہی خواہوں نے اپنے امریکی دوستوں سے مل کر ایردوان کیخلاف بغاوت کروا دی۔ یہ بغاوت15 جولائی 2016ء میں ہوئی تھی جس میں ایردوان بال بال بچ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن صدر ایردوان کو بروقت اس بغاوت کی اطلاع نہ دیتے تو ایردوان کا بوریا بستر گول ہو چکا ہوتا۔ اس موقع پر ایردوان کی اپیل پر ترک عوام نے گلیوں اور سڑکوں پر نکل کر اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے بغاوت کو ناکام بنادیا۔ گولن کے زیر اثر فوجی بغاوت کے دوران250کے لگ بھگ معصوم افراد ترکی کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعدا د میں سویلین فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور ترکی کی پارلیمنٹ، صدارتی محل اور پولیس ہیڈکوارٹر پر بمباری بھی کی گئی۔ ترکی نے فتح اللہ گولن تحریک کی جانب سے کروائی جانے والی اس بغاوت کے بعد امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور تمام شواہد اور ثبوتوں کو جمع کرتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں فائلز امریکی حکام کے حوالے کردیں لیکن امریکی حکام کی جانب سے ابھی تک ان شواہد کو ناکافی قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے اس رویے کی وجہ سے ترکی، امریکہ سے شدید نالاں ہے۔ اب ترکی اور متحدہ امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری دیکھی جا رہی ہے۔
ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد پاکستان واحد ملک تھا جس نے کھل کر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی حمایت کی اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس بغاوت کے خلاف قرار دادیں بھی منظور کروائی گئی تھیں۔ حکومتِ پاکستان نے اس ناکام بغاوت کے بعد حکومت ترکی کا مکمل ساتھ دیتے ہوئے پاکستان میں موجود فتح اللہ گولن کے تمام اسکولوں کو ترکی کی وزارتِ تعلیم کے زیرنگرانی ’’معرف‘‘ کے کنٹرول میں دینے کے لئے ہر ممکنہ تعاون فراہم کیا اور یوں ترکی سے اپنی یک جہتی کا ایک بار پھر ثبوت دے دیا۔