جناب شاہ محمود قریشی کے بارے میں میرے لکھے ہوئے کالم کی اتنی بازگشت سنائی دے گی، مجھے اس کااندازہ ہی نہیں تھا۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد کالموں کی ایک نئی سیریزکا ”اجراء“ہوا ہے جن میں یا تو میرے موقف کی تائید کی گئی ہے اوریا قریشی صاحب کو پہلے سے زیادہ شدومد کے ساتھ ایک مافوق الفطرت قسم کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ قریشی صاحب کی مدح میں لکھے گئے کالموں کا ”مداوا“ ممکن نہیں کیونکہ یہ بہت مربوط اور منظم طریقے سے سامنے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ شنید یہ بھی ہے کہ جناب شاہ محمود قریشی میرے کالم کے حوالے سے مجھ پر بہت ”تبرّا“ بھیج رہے ہیں۔ انہیں خصوصاً اپنے لئے لفظ Clown کا استعمال بے حد ناگوار گزرا ہے حالانکہ بیچارا کلاؤن تو اپنے آنسو اپنی آنکھوں میں چھپائے لوگوں میں مسکراہٹ بانٹتاہے، انہیں ایک پرانی انڈین فلم ”میرا نام جوکر“ یاد ہوگی جس میں راج کپور جوکر بنا ہوا تھا اور اس پر :
جینا یہاں مرنا یہاں
اس کے سوا جانا کہاں
والا گانا اوور لیپ ہوا تھا۔ سرکس میں بیٹھے لوگ اس کی پرفارمنس کی داد دے رہے تھے جبکہ اس کا اپنا دل اندر سے رو رہا تھا، سو اگر وزارت ِ خارجہ سے محرومی پر قریشی صاحب کا دل اندرسے رو رہا تھا تو دوسری طرف ناظرین ان کی پرفارمنس سے بہت محظوظ ہورہے تھے جن میں سے ایک میں بھی تھا۔ تفنن برطرف، مجھے قریشی صاحب کی یہ ادا پسند آئی تھی کہ انہوں نے وجہ کچھ بھی ہو ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ پر سٹینڈ لیا، میں انہیں اس کی داد دینے کے لئے کالم باندھنے ہی والا تھا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کے اس اقدام کی مبالغہ آمیز تحسین کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان کی امیج بلڈنگ اتنے Loud انداز میں کی گئی کہ لگا منصور کے پردے میں کوئی اوربول رہا ہے۔ یہ چیز میر ی فطرت میں شامل ہے کہ میں جس طرح کسی کی حق تلفی ہوتے نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح میں کسی کو اس کے حق سے کہیں زیادہ وصول کرتے دیکھوں تومیں اس بندر بانٹ کو بھی ذہنی طورپر قبول نہیں کرتا۔ میرے نزدیک شاہ محمود قریشی صاحب داد کے یقینا مستحق تھے لیکن داد کے ڈونگروں کے مستحق نہیں تھے۔ اس کے برعکس ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھ پاؤں اگر کسی نے بری طرح شکنجے میں کسے ہیں تو وہ پنجاب حکومت ہے جس نے اسے گرفتار کیا، اس کے خلاف کیس بنایا اور پھر دفعہ 302 کے تحت اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ اس کے بعدمرکزی حکومت بے بس ہوگئی ۔ پنجاب حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے علاوہ یہ کریڈٹ ہماری عدالت کو بھی جاتا ہے جو ریمنڈ کا ریمانڈ پر ریمانڈ دیتی جارہی ہے اوریا پھر ہمارے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیراور ان کے فارن آفس کے رفقا کی جنہوں نے ابھی تک اس سفاک قاتل کے لئے سفارتی استثنیٰ کا کوئی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔ شاہ محمود قریشی صاحب تو سیاستدان ہیں، انہیں تو اپنے اچھے عمل کا پھل ٹوکرے بھر بھر کر مل گیا، مگر سرکاری ملازمین کی تو نوکریاں اور ان کا فیوچر ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے سو اس سارے معاملے میں اگر کوئی ہیرو ہے تو وہ پنجاب حکومت ہے۔ سائیڈ ہیرو فارن آفس ہے اورشاہ محمود قریشی مہمان اداکار ہیں۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ قومی غیرت و حمیت پرمبنی اس فلم میں اس بار ان کا کردار بطور ولن نہیں تھا!
یہ آخری جملہ میں نے یوں لکھا ہے کہ گزشتہ دو تین روز میں شائع ہونے والے بعض کالموں میں ان کی ”سیاسی فلم“میں ان کے”ولانہ“کردار پر بھی روشنی ڈالی گئی اورمیرے جن جملوں پر قریشی صاحب برافروختہ ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ تیز جملوں سے ان کی ”مدارات“ کی گئی ہے مثلاً ان کے بھٹو بننے کے شوق پر کیا پد ّی کیا پد ّی کا شوربہ والی پھبتی کسنے کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ پد ّی کا شوربہ خواہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ہو یا محمود قریشی کے ضمن میں 213ڈرون حملے اور عورتو ں بچوں اور بوڑھوں سمیت کم از کم 2075 پاکستانیوں کا خون اس میں غائب ہو گیا اور جس وزیر خارجہ کے دور میں یہ سب کچھ ہوا اس پر ریمنڈ کے معاملے میں اچانک یہ راز کھلا کہ یہ وقت سر جھکانے کا نہیں سر اٹھانے کاہے۔ شاہ محمودقریشی صاحب کے بارے میں ان دنوں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ 4اپریل 1979 کو جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی، شاہ محموداور ان کاخاندان جنرل ضیاء الحق کی سپاہ میں شامل تھا۔ بعد میں جب شاہ محمود صاحب کو پی پی پی پنجاب کا صدر بنانے کی خوشخبری سن کر ایک بزرگ زار و قطار رونے لگے کہ یہ وقت بھی دیکھنا تھا کہ بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی بانٹنے والے ان کے وارث قرار دیئے جائیں گے! میں نے بھی اپنے کالم میں یہی عرض کیا تھا کہ کسی کے اچھے اقدام کا تحسین کرتے وقت اس کے ماضی کو بھی اگر نظروں میں رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
اور آخر میں ایک ”وضاحت“ اور شاہ محمود قریشی صاحب اپنا ایک کارنامہ یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ملتان کے ناظم ہونے کے باوجود جنرل پرویز مشرف کے استقبال کے لئے ایئرپورٹ نہیں گئے تھے، میرے دوست ممتاز دانشور اور سابق بیوروکریٹ سیدشوکت علی شاہ نے اس ”راز“ سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ”یہ درست ہے کہ شاہ محمود قریشی نے الیکشن کے لئے فنڈز نہ دے کر جنرل پرویز مشرف کی ناراضگی مول لی تھی اور ان کی ملتان آمد پر ان سے ملاقات نہیں کی تھی، لیکن اس کی وجہ وہ نہیں جو انہوں نے پریس کانفرنس میں بیان کی بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں استقبال کے لئے جاتے وقت ایئرپورٹ پر سپاہی نے روک لیا تھا۔ استفسار پر اس نے بتایا کہ ”اوپر سے صاحب لوگوں کا حکم آیا ہے کہ ناظم صاحب کو ایئرپورٹ کے اندر نہیں گھسنے دینا“
اب اس کے بعد میں کیا عرض کروں؟