• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہ محمود قریشی اوربھٹو کی پارٹی...حرف بہ حرف…علی مسعود سید

اب جب کہ ذکر چھڑ گیا ہے تو یاد ہے، شاہ محمود قریشی کا ہیلری کے ساتھ سر جوڑنے والی تصویر کو پسند نہیں کیا گیا تھا۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ دنیا میں امریکہ کی خونخوار درندہ صفت سوچ عراق میں بلا جواز حملے کی باعث بدنامی کی آخری سطح کو چھو چکی تھی اور مشرف کی بدترین حکمت عملی کے باعث پاکستان دہشت گردی کی جنگ کے نام پر ایک ظالم و سفاک دہشت گرد امریکہ کے جنگی اتحاد کو عوام رد کر چکی ہے۔ شاہ محمود کیا کہتے ہیں ،محترم جناب سید ارشاد احمد عارف کی دعوت پر گذشتہ جمعرات ،ایوان اقبال پہنچا ،جب تک آنکھیں چار نہ ہوں ،سوال ہوا میں جل بجھے شرارے کی ماند منزل تک نہیں پہنچتا ، قریشی صاحب کیا اپنی وزار ت کے گذشتہ دورمیں کسی بھی غلطی کا اعتراف نہیں کرنا چاہیں گے؟ استاد گرامی ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ،ڈاکٹر احسن اختر ناز پہلے سے تمام امکانات کاجائزہ لے چکے تھے جبکہ یہاں قیوم نظامی صاحب کی ”جاگو تحریک“ میرے لیے اچھی خبرتھی ،یا پھر مجیب الرحمنٰ شامی صاحب اور سجاد میر صاحب سے گرم جوشی سے بغل گیر ہونا۔ قریشی صاحب نے خوب کہا کہ پاک امریکہ تعلقات کی تعمیر نو کے متعلق سوچنا پڑے گا۔
یاد رہے کہ ریاست ہائے امریکہ کا ریکارڈ آپ کے سامنے ہونا چاہییے ،بیسوں ریاستوں کا انتشار ،بدامنی اور بنیادی حقوق کی پامالی ،پابندیوں کا بے دریغ استعمال ،بدنیتی کی باعث دوسرے ممالک پر حملہ ،زبر دستی اپنی جنگ میں دوسرے ممالک کو شامل کرنااور اختلاف کی صورت میں توڑ پھوڑ اور خرید و فروخت کے ذریعے دباوٴ کی شدت کا بڑھنا ۔محدود دائرے سے نکلیں جناب ! لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں کے قاتلوں کے دائرے سے اوراب عالمی انصاف کی بات کریں۔خدارا وہ دن کب آئے گا جب اقوام عالم کا مردہ ضمیر جاگے گااور ایک حقیقی عالمی عدالت میں بے گناماریجانے والوں کی گنتی ہوگی۔غلیظ تر ،غلیظ تر مفادات کی خاطر امداد کی بوری کا منہ کھولنا اور بند کرنا …کیا ہے امریکی سوچ ۔۔گھٹیا پن، ہر لحا ظ سے گھٹیا پن …حکم عدولی کو برداشت نہ کرنا اور سنگین نتائج کی دھمکی دینا …مسئلہ ذاتی تعلقات کا نہیں ہے ،اگرکوئی امریکی اہل کار ہمارے کسی ذمہ دار سے ملاقات کرتا ہے اور خندہ پیشانی سے ملتا ہے توبہت خوب ہے ،مگراس سے زیادہ ہمیں اس بات سے فرق پڑتا ہے کہ آیاان ملاقاتوں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے …سربلندی یا پسپائی، اپنے پیروں پر کھڑے ہونا یا بھیک ۔۔آفرین کہ ماہرینِ معاشیات مشترکہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے ۔کچھ دن گزرتے ہیں ،میزبان جنگ اکنامک سیشن جناب سکند ر لو دھی صاحب نے شرکاء سے تمام گفتگو کا نتیجہ دیا کہ حکمران امداد کو نشے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اوراب ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ میں سوچتا ہوں کہ جس فرعونی سوچ کو ہمارے ہاں جاگیر دارانہ سو چ کے نام سے جانا جاتا ہے ، وہ کیا ہے ،کیا ا مریکہ ہم پر اس طرح مسلط نہیں ہے ؟۔۔۔گرج گر ج کر جاگیر داروں کو للکارنے والو،یاد رکھوسب سے بڑا فرعون امریکہ ہے ،جب تک درخت جڑ سے نہ کاٹا جائے گا ،شاخیں کاٹنے سے کیا ہوگا ،امریکہ تعلقا ت ختم کیے جائیں اور پھر برابری کی سطح پر ہی بحال کیے جائیں ،اگر برابری نہ کہوں تو ہمارے تعلقات انصاف کی بنیاد پر نہیں رہے ،،آپ نے بارہا عافیہ کی رہائی کی بات کی ،انہوں نے کہا ہو گا کہ کوشش کریں گے یا کہا ہوگا کہ ہم مجبور ہیں مگر عملاً ایسا نہیں کیا گیا ،آپ نے ڈرون حملے کے بارے میں خدشات کا ذکر کیا ہوگا ،وہ زیر لب مسکرائے ہوں گے مگرڈرون حملے بند نہیں کئے ،سینکڑو ں ایسی باتیں جن سے میں اوراق سیا ہ نہیں کرنا چاہتا مگر آپ پھر بھی ان سے دوبارہ ملنے ،مسکرانے ،غم کھانے پر مجبور تھے ،درست ہے کہ خارجی تعلقات کے دروازے بند نہیں کیے جاتے مگرخارجی تعلقات میں توازن لازمی ہے ،کیا آپ قاتلوں ،ڈاکووٴں کے لیے بھی دروازہ بند نہیں کریں گے ۔اے آزادی زندہ باد۔۔جو کل نہیں مانا تھا ،آج مانے گا اور جو آج نہیں مانا ہے وہ کل مانے گا۔آزادی ،پاکستان کو حقیقی آزادی چاہیے ۔
امریکی کاسہ لیسی کے بغیر جینے کا فیصلہ ہی قومی مو ت سے بچنے کا راستہ ہے،جب بنیاد ہی کج ہے تو کاہے کی خارجہ پالیسی ؟اور کون بناتا ہے خارجہ پالیسی سوائے اس کہ ”ہم تم کو یہ کہیں گے تو پھر تم ہم کو یہ کہنا اورہم وہی کریں گے جو تم کہوگے چلو اب بتا و ٴ!تم ہم کو کیا دو گے“ ۔
قریشی صاحب !دیر سے آئے مگر آئے تو۔۔۔ وجہ کچھ بھی ہوہمیں شاہ محمود قریشی کے لیے با ہیں کھول دینی چاہییے ،ایک اعتراز یہ ہے کہ حکومت سے اختلا ف کی وجہ صرف اور صرف وزارت خارجہ سے ہٹانا ہے ،اگر ان کووزارت خارجہ دے دی جاتی تو کوئی اختلاف نہیں تھا۔نہیں ہر گز نہیں سوال یہ ہے کہ اگر وہ اختلاف نہ کرتے توان کووزارت خارجہ سے سے ہٹا نے کی ضرورت نہیں تھی اور پھر دوسری بات یہ کہ ان جیسے تجربہ کار سیاست دان کے لیے کوئی وزارت نہ ہونے سے کوئی وزات ہونا بہتر ہے یعنی اگر وہ صرف ذاتی مفادات کو مد نظر رکھ کرفیصلہ کرتے تو پانی و توانائی کی وزارت اتنی بھی بری نہیں تھی ۔شاہ محمود قریشی جو کل نواز شریف کے ساتھ بھی رہے ہیں، پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ،اوربینظیرکے ساتھ کھڑے ہوئے، مشرف کے خلاف بغاوت کی ،اب جبکہ بھٹو کے داماد کی پارٹی کاامریکہ سے رومانس ختم ہونے ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ یہی وقت ہے کہ وہ گڑھی خدا بخش جا کر بھٹو کی پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں،یہ اب ان پر ہے کہ انہیں لغاری بننا ہے یا بھٹو بنناہے یقینا بھٹو بننا دشوار ہے ۔
بھٹو جس نے امریکی سامراج کے خلاف بغاوت کی تھی،بھٹو جس نے کہا تھا کہ ظالم سر کاٹ تو سکتا ہے ،جھکا نہیں سکتا ،ظالموں پر خدا کی لعنت ہو۔
تازہ ترین