اسلام آباد( طاہر خلیل) روشنیاں مدھم ہوئیں تو پی آئی ڈی کانفرنس روم کے خواب آگیں ماحول میں دھیمے مزاج کے خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کی کامیاب سٹوری سے ہٹ کر دھیرے دھیرے سیاست کی گرہیں کھولنا شروع کیں، 45 سال قبل خواجہ رفیق شہید کا بیٹا جو ماں کی انگلی پکڑ کر چلتا تھا آج اس نے میاں نوازشریف کا ہاتھ تھام رکھا ہے، ریلوے کا وزیر بنا تو آڈٹ کے مطابق ریلوے اس وقت 80 ارب کی کرپشن میں ڈوبا نزاعی کیفیت سے دوچار تھا، اس ادارے میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی لیکن ساڑھے چا ر برسوں میں روبہ زوال ریلوے نے کامیابی کی ایک ایسی داستان رقم کی کہ جو دیگر قومی اداروں کےلئے لائق تقلید مثال ہے۔ چار سال کے عرصے میں ریلوے کی آمدنی میں 123 فیصد اضافہ ریکار ڈ پرہے۔ خواجہ سعد رفیق کی سیاست چار عشروں پر پھیلی ہے، اس کی ابتدا 1972 کے بھٹو دور میں اس وقت ہوئی تھی جب ان کے والد خواجہ رفیق کو ’’ شہید ‘‘ کیاگیا۔ ان کے قاتل آج تک گرفتار نہیں ہوسکے۔ جمہوریت سے سعد رفیق کی وابستگی کا آغاز تھا، سینئر صحافیوں کے سامنے پرانی یادیں تازہ کیں اور زمانہ طالبعلمی کی تاریخ کے اوراق پلٹے جب خواجہ سعد رفیق جمعیت طلبا اور پی آئی او سلیم بیگ ترقی پسند تنظیم کے سرگرم رہنماوں میں شمار ہوتے تھے ،کچھ عرصے بعد جمعیت چھوڑی تو انہوں نے کالج کی سیاست میں سلیم بیگ کا ساتھ دیا جو بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور کی سٹوڈنٹس یونین کے صدربنے تھے۔ سلیم بیگ آج پی آئی او کی حیثیت سے صحافی برادری کو لیڈ کررہے ہیں لیکن سعد رفیق آ ج بھی انہیں اپنا لیڈر گردانتے ہیں، خواجہ سعد رفیق کی جمہوریت سے کمٹمنٹ کسی فرد کی وجہ سے نہیں وہ سیاست میں اس وقت سے ہیں جب مسلم لیگ(ن) کی موجودہ قیادت میں خال ہی کوئی سیاستدان بنا تھا۔ خواجہ سعد رفیق اور ان کی والدہ کوجنرل ضیا الحق کی انتظامیہ نے شوریٰ میں شامل ہونے کی پیش کش کی جو انہوں نے شکریے کے ساتھ لوٹا دی تھی۔ یہ امر سعد رفیق کیلئے باعث عزو افتخار ہے کہ انہوں نے یا ان کے خاندان نے کبھی غیرجمہوری عہد حکومت کا ساتھ نہیں دیا ۔