اسلام آباد (تبصرہ: وسیم عباسی)پاکستان کے برسرپیکار وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو اپنی علالت کے باعث طویل رخصت پر چلے گئے اور وزارت خزانہ سے تقریباً فارغ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے اقتصادی اشاریوں میں بہتری کے ذریعہ اپنے پیچھے بڑا مضبوط ورثہ چھوڑا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید کے باوجود قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ، عالمی مالیاتی اداروں اور اقتصادی ماہرین نے پاکستان کی اقتصادیات میں بہتری کی تعریف کی ہے۔ اسحاق ڈار جنہیںاحتساب عدالتوں میں اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات کا سامنا اور اپنی علالت کے باعث لندن کے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تین ماہ رخصت کے لئے درخواست پر انہیں وزارت خزانہ سے سبکدوش کردیا ہے۔ کچھ اپوزیشن سیاست دانوں نے اور ٹی وی اینکرز نے رواں سال بڑھتے ہوئے قرضوں پر انہیں ہدف تنقید بنایا لیکن بہت کم لوگوں کو اسحاق ڈار کے کارنامے یاد ہونگے۔ جب انہوں جون 2013میں وزارت خزانہ سنبھالی تھی۔ اسحاق ڈار کے تحت پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مستحکم یا بہتر رہی۔ کریڈٹ ریٹنگ اداروں موڈی، فچ اور ایس اینڈ پی نے اسے مستحکم قرار دیا۔ ولسن سنٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایشیاء پروگرام امریکی ماہر مائیکل کو گلمین نے پاکستان کی اقتصادی کامیابیوں پر اسحاق ڈار کی تعریف کی۔ اقتصادیات پر ایک سینئر چینی صحافی نے کہا کہ ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک کی اولین ملک کی حیثیت سے پاکستان کی شمولیت پر اسحاق ڈار کی تعریف کی جانی چاہئے۔ ورلڈ بینک کی طرز پر یہ بینک پنجاب میں شور کورٹ تا خانیوال 64کلومیٹرز طویل ایم۔4ہائی وے کی تعمیر میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ گزشتہ سال تک کراچی اسٹاک ایکس چینج کا 2013سے ایشیاء کی بہترین اسٹاک مارکیٹوں میں شمار ہوتا رہا۔ ملک کی اقتصادی شرح نمو تقریباً 5فیصد تک پہنچ گئی۔ بلومبرگ نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کو خوشگوار اور حیران کن قرار دیا۔ 2002سے پاکستان میں غربت کی شرح گرکر نصف رہ گئی۔ جبکہ گزشتہ تین برسوں کے دوران دہشت گردی سے ہلاکتوں میں دوتہائی کمی واقع ہوئی۔ بزنس ان سائیڈر پاکستان کا شمار دنیا کی 32 بڑی اقتصادیات میں کیا اور پیشنگوئی کی کہ 2030 تک پاکستان کا شمار 20 صف اول کی اقتصادیات میں ہوگا۔ گزشتہ برس اپنے دورہ ئ پاکستان میں ورلڈ بینک کے صدر جم یونگ کم نے کہا تھا کہ پاکستان اب ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گا مزن ہوگیا ہے۔ اکنامسٹ کے مطابق پاکستان کی اقتصادیات میں شامل کلیدی اشاریوں میں 17ارب 70کروڑ ڈالرز زرمبادلہ کے ذخائر بھی شامل ہیں۔