ضروری ہے کہ اپنے اردگرد کے مسائل میں سے کچھ اہم مسائل کو اجاگر کیا جائے۔ یوں تو تواتر سے ان مسائل کے بارے میں مضامین لکھے جارہے ہیں اور ارباب اختیار کو بہترین مشورے دئیے جاتے ہیں۔ ان مسائل کی فہرست میں 2018 ءکے انتخابات کے مسئلہ کو اہم مقام حاصل ہے۔ عوام، الیکشن ،عوامی قیادت کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اسی طرح جمہوریت کا روح رواں بھی الیکشن کو مانا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کچھ تلخ حقائق کو چھپانا زیادتی ہے۔ الیکشن 2018 ءمیں بس اب چند مہینے باقی ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے لیڈر صاحبان بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کررہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح دلفریب نعروں، وعدوں سے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ حصول اقتدار کیلئے بڑے بڑے اتحاد بن رہے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جمہوریت کی بدترین شکل بھی امریت سے بہتر ہے۔‘‘ جمہوریت کی پوری عمارت (پارلیمنٹ) الیکشن کی مرہون منت ہے۔ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ اور شفاف الیکشن بہت بڑا چیلنج ہیں۔ کیونکہ ماضی میں انہی الیکشن کے بعد سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ کبھی مارشل لا اور کبھی جمہوریت، اب تو مسلسل تیسری مرتبہ پارٹی بنیاد پر الیکشن 2018ء میں ہونے جارہے ہیں۔ بنیادی جمہوریت (بلدیات) ریفرنڈم، پھر مجلس شوریٰ اور غیر سیاسی بنیادوں پر الیکشن ہوئے ہیں مگر پرنالہ وہیں کا وہیں ۔ بہرحال دیکھنے کی بات یہ ہے کہ الیکشن 2013 کے انعقاد کے بعد جمہوریت کی گاڑی کتنا آگے چلی ہے۔ الیکشن کے نتیجے میں کیسی قیادت آئی ہے۔ پھر پانچ سال کے بعد ان کے نامہ اعمال میں کیا لکھا گیا ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے سوائے بھی عوام کو متوازن قیادت نصیب ہوتی ہے کہ نہیں۔ خامیوں سے پر انتخابات کے انعقاد کے بعد کیا ریاست کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں جب تک تلخ حقائق، اور اپنا محاسبہ نہ کیا گیا اور سب ٹھیک ہے کی منطق پر ہوتا رہا تو عوام کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ قارئین کرام الیکشن کے بعد درج ذیل اہم سوالوں کے جواب اگر مثبت میں آتے ہیں تو بہتر تا بصورت دیگر ہمارے نظام میں ضرور کوئی خرابی موجود ہے اور اس کا تدارک قبل از وقت کیا جائے تو بہتر ہوگا اور مجھے ذاتی طور پر نئے الیکشن سے کوئی بڑی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ بس وقت پورا ہوگیا۔ الیکشن کئے کچھ نئے اور کچھ پرانے لوگ منتخب ہوئے آزاد دنیا کو دکھایا ہمارے ہاں جمہوریت ہے، اور کچھ آزاد چینل یا ذرائع کی تصدیق کو دیکھایا جاتا ہے کہ ملک میں آزادانہ ، غیر جانبدارانہ، پر امن اور صاف الیکشن ہوئے ہیں۔ الیکشن کے اندرونی نقائص بڑے ڈھنگ سے چھپائے جاتے ہیں… آئیں ہم اپنا محاسبہ کریں اور خود سے پوچھیں کہ بار بار انتخابی عمل کے نتیجے میں بتدریج الیکشن میں صادق اور امین افراد منتخب ہو رہے ہیں؟ کیا جتنے ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں وہ واقعی اتنے ووٹ ووٹر نے اپنی مرضی سے کاسٹ کئے ہیں۔ یا محض ایک نمائشی عمل میں زندہ لوگوں کے علاوہ مردوں کے ووٹ بھی کاسٹ ہوئے ہیں۔ کبھی ہم نے یہ سوچنے کی جسارت بھی کی اگر انتہائی تیزی سے بھی کام کیا جائے بھی تو ایک ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے تین چار منٹ لے ہی لیتا ہے۔ میں ان ووٹر کی بات کررہا ہوں جو کہ خواندہ ہیں اور انہیں اپنے اپنے ووٹ کا سلسلہ نمبر اور دیگر تمام مراحل کا اچھی طرح پتہ ہوتا ہے۔ ناخواندہ اور دیگر ووٹر تو اس سے بھی زیادہ وقت لیتے ہیں پھر ایک پولنگ بوتھ میں تو موجودہ طریقہ کار کے مطابق ہزاروں ووٹ کا شام تک ڈالا جانا ناممکن ہے۔ بحرحال یوں تو لکھنے کو بہت ساری باتیں ہیں۔ کچھ مسائل ہو جاتی ہوئی حکومت تحفے میں اگلی حکومت کو دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ماضی کے مقابلے میں اب لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جاسکا۔ کیا دہشت گردی، بے روزگاری، مہنگائی اور لا قا نونیت گزشتہ الیکشن سے نئے الیکشن کے دوران کم ہوا یا زیادہ ہوا دیکھنا ہوگا۔ معیشت کا کیا حال ہے۔ معاشرہ میں اسلامی اقدار اور میرٹ کا نظام کیسے ہے۔ عام عوام محفوظ اور خوشحال ہیں یا کہ بس ہمیشہ غریب کے ووٹ سے امیر اور سیاسی اشرافیہ اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خواتین کو ماضی کے مقابلے میں اب کیا حقوق دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ سے لیکر تمام اداروں تک کیا یہ مضبوط ہوئےہیں۔ ہم نے دیکھنا ہوگا کہ قانون پر کتنا عمل درامد ہوا ہے۔ بدقسمتی سے چند ایک شعبوں میں کچھ جزوی بہتری ہوئی ہے۔ مگر دیگر تمام شعبوں، اداروں وغیرہ میں وہی مسائل مزید شدت سے محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ یوں تو الیکشن کمیشن میں بڑی اچھی اصلاحات کی گئی ہیں۔ الیکٹرانک مشینوں کے تجربے بھی ہوئے ہیں۔ قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درامد بڑا مسئلہ ہے۔ سابقہ الیکشن کے ریکارڈ سے عیاں ہے کہ الیکشن کے روز امیدوار آزادانہ لوگوں کے ووٹ خرید رہے ہوتے ہیں۔ بعض امیدواروں نے تو انتظامیہ سے ملی بھگت کرکے اپنے ہی لوگوں کی الیکشن ڈیوٹی لگائی۔ اور خوب دھاندلی کروائی ہمارے موجودہ سسٹم میں اور کئی نقائص میں مضمون کی طوالت کی وجہ سے بات کو مختصر کرنا ہے۔ یہ دیکھا گیا کس طرح لوگ بریانی کے پلیٹ پر اپنا ووٹ فروخت کررہے ہیں۔ برادری، قبیلہ، ذات پات، لسانیت، دھونس دھاندلی غیر جانبدارانہ الیکشن کی راہ میں حائل ہیں۔ اگر حسب سابق 2018 ءکے الیکشن میں یہی کچھ ہونا ہے تو پھر میرے نزدیک یہ خود فریبی اور ووٹر کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس سے جمہوریت کو تقویت ملتا نظر نہیں آرہا ہے۔