مکافات عمل قدرت کے اُس قانون کا نام ہے جس کے تحت انسان کو اپنے کئے کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ انسان جو کچھ بوتا ہے، اُسے وہی کچھ کاٹنا پڑتا ہے اور یہ سارا عمل اُس کی زندگی میں ہی سامنے آجاتا ہے۔ مکافات عمل میں اللہ کی ایسی پکڑ ہوتی ہے جس سے لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ایک وقت تھا جب طاقت کے گھمنڈ میں کل کے آمر مطلق اور خود کو عقل کل سمجھنے والے جنرل (ر) پرویز مشرف نے شریف خاندان کے ساتھ جس طرح کا برتائو رکھا، آج وہ خود قدرت کی طرف سے کچھ اِسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں اور کل تک انہوں نے جو کچھ شریف برادران کے ساتھ کیا تھا، آج وہی بھگت رہے ہیں۔
یہ 2006ء کی بات ہے، نواز شریف کو سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کئے 6 سال ہوچکے تھے، اس دوران ان کے پاکستانی پاسپورٹ کی مدت ختم ہوچکی تھی اور وہ سعودی عرب سے کسی دوسرے ملک جانے سے قاصر تھے۔ انسانی ہمدردی کے ناطے سعودی حکومت نے جنرل پرویز مشرف سے نوازشریف کو علاج کی غرض سے برطانیہ جانے کی اجازت دینے کی درخواست کی اور یقین دلایا کہ نواز شریف برطانیہ سے واپس پاکستان نہیں جائیں گے۔ جنرل پرویز مشرف سعودی حکومت کی درخواست رد نہ کرسکے اور انہوں نے پاکستانی سفارتخانے کو شریف فیملی کے پاسپورٹس کی تجدید کرنے کی ہدایت کی مگر ساتھ ہی برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو پیغام بھیج دیا کہ ’’برطانوی حکومت شریف فیملی کو ویزے جاری نہ کرے۔‘‘ اس طرح برطانیہ ،جو جمہوریت کا علمبردار کہلاتا ہے، نے فوجی ڈکٹیٹر کے دبائو میں آکر سابق پاکستانی وزیراعظم اور ان کی فیملی کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں ایک پاکستانی نژاد مسلم رکن پارلیمنٹ کی اس دھمکی پر کہ وہ پریس کانفرنس میں برطانیہ کی جمہوریت کا اصل چہرہ بے نقاب کردیں گے۔ شریف فیملی کو ویزا جاری کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔واضح ہو کہ اس سے قبل جب میاں نواز اور شہباز شریف اپنی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس لوٹے تھے تو انہیں اپنے ہی ملک میں داخلے کی اجازت نہ ملی تھی اور ان کی تذلیل کرکے زبردستی طیارے میں بٹھاکر واپس بھیج دیا گیا تھاحتیٰ کے شریف برادران کو اپنے والد کے جنازے میں شرکت کیلئے بھی پاکستان آنے کی اجازت نہ دی گئی تھی ،شریف برادران اپنے والد کے جنازے کو کاندھا دینے سے بھی محروم رہے۔ اسی طرح پرویز مشرف نے اپنے دور میں شریف خاندان کے اُس آبائی گھر جہاں میاں برادران نے اپنا بچپن گزارا تھا، کو ’’اولڈ ہائوس‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ آج سپریم کورٹ کے حکم پر پرویز مشرف کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی گئی ہیں اور وہ بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح وہ ڈکٹیٹر، جس کے حکم پر شریف فیملی کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا، آج خود اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہے۔
پرویز مشرف کو آج کل ایک نئی مشکل درپیش ہے۔ 2013ء میں پرویز مشرف کو دبئی میں جاری ہونے والے پاکستانی سفارتی پاسپورٹ کی مدت 16 مارچ 2018ء کو ختم ہورہی ہے اور وہ ان دنوں اپنے پاسپورٹ کی تجدید کیلئے انتہائی پریشان ہیں اور ان کے پاسپورٹ کی تجدید کا دارومدار اسی شخص پر ہے جس کی کل پرویز مشرف نے زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔پرویز مشرف نے اپنے پاسپورٹ کی تجدیدکیلئے یو اے ای میں پاکستانی سفارتخانے سے رجوع کیا تھا جنہوں نے پرویز مشرف کے پاسپورٹ کی تجدید کی درخواست مسترد کردی اور مطلع کیا کہ درخواست پر عملدرآمد کیلئے انہیں وفاقی حکومت کی منظوری کی ضرورت ہوگی جس کے بغیر پاسپورٹ کی تجدید ممکن نہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے جب دبئی میں برطانیہ کے ویزے کیلئے درخواست دی تو پرویز مشرف کو مطلع کیا گیا کہ وہ اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروائیں کیونکہ برطانوی قانون کے مطابق ویزا جاری کرنے کیلئے پاسپورٹ کی میعادمیں 6 مہینے سے زیادہ ہونی چاہئے۔ ایسی صورتحال میں جنرل پرویز مشرف برطانیہ کے علاوہ ان ممالک کا سفر کرنےسے بھی قاصر رہیں گے جن کے ویزے ان کے پاسپورٹ پر چسپاں ہیں۔واضح ہو کہ برطانیہ کے علاوہ بھی دنیا کے کئی ممالک صرف ان لوگوں کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دیتے ہیں جن کے پاسپورٹ کی میعاد 6 ماہ سے زائد عرصے تک Valid ہو۔
پاکستانی قانون کے مطابق تمام سابق صدور، وزرائے اعظم، چیئرمین سینیٹ، قومی اسمبلی کے اسپیکر ، چیف جسٹس، گورنر اور وزیراعلیٰ کو سفارتی پاسپورٹ رکھنے کا حق حاصل ہے تاہم مختلف عدالتوں کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کو غداری کیس، بینظیر بھٹو قتل کیس ، لال مسجد آپریشن کیس اور ججوں کی حراست کے معاملے میں اشتہاری قرار دیئے جانے کے باعث پاکستانی عدالتیںبھی انہیں اس سلسلے میں کوئی ریلیف نہیں دے پائیں گی۔ ایسی صورتحال میں اگر حکومت ان کے پاسپورٹ کی تجدید سے انکار کردیتی ہے تو وہ مزید مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں اور پاسپورٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد یو اے ای کے اقامہ کی تجدید بھی ممکن نہ ہوگی اور ان کیلئے دبئی میں مزید قیام ناممکن ہوجائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں جنرل پرویز مشرف کو کون مشکل سے نکالتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کسی دبائو میں آئے بغیر اس معاملے کو آئین و قانون کی روشنی میں نمٹائے کیونکہ ایسا شخص جو آئین سے غداری کا مرتکب ہوا ہے، سفارتی پاسپورٹ رکھنے کا مجاز نہیں۔ ایک عشرے قبل شریف فیملی کے پاسپورٹس کی تجدید جنرل پرویز مشرف کے رحم و کرم پر تھی اور آج مشرف کے پاسپورٹ کی تجدید نواز شریف کے رحم و کرم پر ہے۔اس طرح وہ ڈکٹیٹر جو کل تک شریف برادران کے لئے عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے تھا، آج خود اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ شاید اسی کا نام مکافات عمل ہے۔
اس دار مکافات میں سن اے غافل
جو آج کرے گا تو وہ کل پائے گا