اقتدار کا نشہ ایک بارچڑھ جائے تو اچھے اچھوں کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں یا پاور کوریڈور کی پرانی یادیں دماغ کو ایسے جکڑ لیتی ہیں کہ آدمی ایک بار پھر وہاں کا چکر لگانا چاہتا ہے۔ 12اکتوبر 1999ء سے 18اگست 2008ء تک پاکستان کے مختار کل رہنے والے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اس کی تازہ مثال ہیں۔
پاکستانی سیاست کا موسم 2018ء کے عام انتخابات کے قریب آنے کی وجہ سے گرم تر ہورہا ہے، جوڑ توڑ عروج پر ہے، حلیف اور حریف صف بندی کررہے ہیں، نئے سیاسی اتحاد بن رہے اور پرانے بگڑ رہے ہیں، نئی اور پرانی سیاسی جماعتیں اپنا اپنا سیاسی حصہ وصولنے کی پوری کوششیں کررہی ہیں۔
ایسے میں پرویز مشرف جو ملک سے باہر بیٹھ کر اقتدار کی راہداریوں میں جاری رسہ کشی پر نظر جمائے بیٹھے ہیں، وہی وہ اپنے اتحادیوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں، پہلے وہ پی ایس پی اور ایم کیو ایم انضمام سے کچھ اچھا برآمد ہونے کے منتظر تھے لیکن امید بر نہیں آئی، پھر ڈیڑھ درجن سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہ بن گئے لیکن وہ بھی چند روز میں بکھر گیا۔
ابھی چند روز قبل ہی لاہور ہائیکورٹ نے سابقہ کالعدم لشکر طیبہ اور وفاقی وزارت داخلہ کی واچ لسٹ میں شامل جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی نظر بندی ختم کی تو امریکا سمیت دیگر ممالک نے انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کیلئے پاکستان پر دبائو بڑھانا شروع کردیا لیکن اپنے دور میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی اور بھارت سے مذاکرات کے بڑے حامی پرویز مشرف نے حیرت انگیز طور پر حافظ سعید کی حمایت میں بیان داغ دیا۔
ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں پرویز مشرف نے کہا کہ میں کالعدم لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کا سب سے بڑا سپورٹر ہوں، انہیں پسند کرتا ہوں، حافظ سعید سے ملاقات ہوچکی ہے، وہ اچھےہیں، بھارت کوکشمیر میں بھرپور جواب دینے کا حامی ہوں۔
اس سے پہلے بھی وہ کہہ چکےہیں کہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کو بھارت نے امریکا کی مدد سے دہشت گرد قرار دلایا ہے لیکن وہ تو فلاحی تنظیم ہے، کشمیر یوں کے لئے جدوجہد کرتی ہے، بھارت نے کشمیر پر قبضہ کررکھا ہے۔
ہم لشکرطیبہ اور جماعت الدعوۃکے بارے میں سابق صدر پرویز مشرف کے خیالات میں یوٹرن جیسی تبدیلی پر حیران ہیں۔ موجودہ بین الاقوامی سیاسی صورتحال میں ایک طرف پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کالعدم لشکرطیبہ اور جماعت الدعوۃ سمیت دیگر جہادی گروپوں کو ریاست کا بوجھ قرار دے رہے ہیں، دوسری طرف پرویز مشرف ان کی محبت کے گیت گا رہےہیں۔
یہ وہی پرویز مشرف ہیں جنہوں نے 11ویں سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اپنی تقریر کےفوری بعد بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے ہاتھ ملا کر مذاکراتی عمل کے آغاز کا پیغام دیا تھا، اس عمل کو شاید ہی پاک بھارت کے صحافتی اور سیاسی حلقے بھول پائیں۔
یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بھارت کی مضبوط خارجہ پالیسی کی وجہ سے اقوام متحدہ نےلشکر طیبہ پر 26 دسمبر 2001ء میں پابندی لگادی تو بھارت نے پرویز مشرف پر دبائو بڑھادیا، اسی تناظرمیں ملک بھر میں جہادی تنظیموں کے مراکز پر کریک ڈائون کا سلسلہ شروع ہوا، بازاروں میں رکھے چندے کے بکس اٹھائے گئے اور حافظ سعید کو جماعت الدعوۃ کے عنوان سے نئی جماعت بنانی پڑگئی۔
چند ماہ قبل لاہور کے حلقے این اے 120 میں الیکشن میں حافظ سعید کی تصویر پر ’ملی مسلم لیگ‘ نامی ایک جماعت نے الیکشن لڑا اور سیاسی پنڈتوں کو اپنی جانب متوجہ بھی کیا، حکومت نے اس پر نظر رکھی اور الیکشن کمیشن میں جماعت کی رجسٹریشن نہ ہونے دی۔
اگر آج سابق صدر پرویز مشرف کو حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ کی یاد ستارہی ہے، ان میں خوبی بھی نظر آرہی ہیں، تو اسے مستقبل کی سیاسی پیش بندی کی طرف ایک اشارہ کہا جاسکتا ہے، اب دیکھتے ہیں ان کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
(ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)