بظاہر تو پاکستان میں ایک پورا نظام ِ مملکت موجود ہے مگرسچ یہ ہے کہ یہاں کوئی نظام نہیں اور اگر کوئی ہے تو پھر اُس نظام کا نام ہے ’’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ‘‘۔وہ گلی پختہ ہوجاتی ہے جس گلی سے اہل اقتدار کو ووٹ ملے ہوتے ہیں ۔ وہاں گیس کے پائپ بھی پہنچ جاتے ہیں مگر بالکل ساتھ والی گلی کے لوگ ان سہولتوں سے محروم کر دئیے جاتے ہیں کہ وہاں سے ووٹ نہیں ملے ہوتے۔اسی تنا ظر میں ڈاکٹر صغری صدف کا کالم ’’بھکر ہیلپ لائن پڑھا توخوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی ۔خوشی اس بات پر ہوئی کہ 1982 میں میانوالی سے علیحدہ ہونے والی تحصیل بھکرکے نصیب میں سید بلال حیدر جیسا ڈی سی او آیا جس نے ضلع بھکر کی حالت بدل دی اور افسوس اس بات پر کہ میانوالی جو 1901میں ضلع بنا تھااُس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔بہت پیچھے نہیں جاتے پچھلے ساڑھے چار سال کا جائزہ لیتے ہیں ۔سوائے اس کے ڈی پی او میانوالی صادق علی ڈوگرنے ذاتی طور پر فنڈنگ جمع کرکے ایک معیاری ایجوکیشنل ادارہ ’’پولیس ایجوکیٹر پبلک اسکول اینڈ کالج ‘‘ بنوایااور اس کے ساتھ ’’میانوالی سہولت سینٹر ‘‘ کے نام ایک ایسا سینٹر بنادیا جہاں پولیس سے متعلقہ تمام سہولتیں ایک ہی جگہ فراہم کردی گئیں۔ اس کے علاوہ جو بھی کام ہواوہ حلقہ این اے اکہتر میں کیا گیا جہاں سے عبید اللہ شادی خیل نون لیگ ایم این اے ہیں ۔باقی تمام میانوالی کومکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ۔صرف اس لئے کہ باقی علاقہ کے لوگوں نے تحریک انصاف کے ایم این اےامجد علی خان کو ووٹ دئیے تھے۔
یقین کیجئے کہ میانوالی کی گلیاں آثار قدیمہ کا منظر بن چکی ہیں ۔ایک اہم روڈایم ایم روڈ جو میانوالی سے بھکر لیہ اور ملتان جا رہا ہے اس کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔پنجاب میں اس سڑک سے زیادہ کہیں حادثات نہیں ہوتے ۔اور ہاں کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ شاید ہمارے صحافی دوست رئوف کلاسرا ہیں جو اکثراپنے پروگرام میں اس سڑک کا رونا اِس توقع پر روتے ہیں کہ شاید وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ’’انقلابی نگاہ ‘‘ اس روڈ پر بھی پڑجائے ۔وہ سچ بولتے ہیں اور سچ کڑوا ہوتا ہے ۔ اہل اقتدار ان کی باتیں بالکل ایسے سنتے ہیں جیسے کڑوے گھونٹ بھر رہے ہوں ۔مجھے ان کی توقع پر حیرت ہے ۔ جنوبی پنجاب کے ایم این اے اسی راستے سے اسلام آباد جاتے ہیں ۔پتہ نہیں یہ سڑک انہیں نظر آتی ہے یا نہیں۔
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بھی عمران خان کے شہر ہونے کے سبب میانوالی سے خصوصی سلوک کیا ہے۔امید ہے نیب کے حکام بھی ان کے ساتھ وہی خصوصی سلوک کریں گے ۔ہمارے پیارے وزیرنےمیانوالی جہاں سے پانچ ٹرینیں پنجاب کے مختلف حصوں میں جاتی تھیں ان میں سے تین بندکر دی ہیں ۔خاص طور پر تھل ایکسپریس اور راولپنڈی جانے والی ریل کار بند کر کے میانوالی کے لوگوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی گئی ہے ۔خیر کوئی بات نہیں ۔(اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں )
پچھلے دنوں میانوالی کے لوگوں کو ایک بہت خوبصورت خواب دکھایا گیا تھا کہ دریائے سندھ میں ایک اسٹیمر چلا کرےگا جو کالاباغ سے اٹک تک جائے گا اوروہ اسٹیمر سچ مچ میانوالی پہنچا دریا میں بھی اتارا گیامگر ایک دن بھی نہ چل سکا۔اطلاعات کے مطابق اس بڑے اسٹیمر کے پیچھے کرپشن کی کوئی بڑی کہانی موجود ہے ۔
میانوالی اتنا خوبصورت ہے جتنا کوئی جھوٹ بولے مگر جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ۔ میانوالی کی نمل جھیل گولائی میں تراشی ہوئی پہاڑیوں کے درمیان ایک پیالے کی صورت میں صدیوں سے موجود ہے مگر اس تک پہنچنے کےلئے دوتین میل پیدل چلنا پڑتا ہے ۔اس جھیل کا جو زائد پانی باہر نکل جاتا ہے۔اس کے کنارے پر عمران خان نے نمل یونیورسٹی بنائی ہوئی ہے۔ یار لوگ تو اُسی کودیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں ۔اصل نمل جھیل کا منظر پاکستان کے بہت کم لوگوں نے دیکھا ہے ۔اسی طرح کالا باغ کے قریب’’قمر سر‘‘جہاں سخت گرمیوں میں درجہ حرارت زیرو سے زیادہ نہیں ہوتا ۔ اُس مقام ِ پُر فضا کوسیاحت کے قابل بنانے کا کسی نے سوچا ہی نہیں۔میانوالی کی ایک خوبصورت چیز ’’تھل کینال ‘‘ ہےیہ نہر کالاباغ سے نکلتی ہے اور میانوالی شہر کودرمیان سے چیرتی ہوئی بھکر ضلع میں داخل ہوجاتی ہے ۔ میانوالی میں اس کی چوڑائی اتنی زیادہ ہے کہ یورپ کے کئی دریا اس سے چھوٹے ہیں ۔یہ نہرمظفرگڑھ تک بنجر زمینوں کو سیراب کرتی ہےمگر اِس ندیا کے اجاڑ کناروں کو خوبصورت بنانے کا کبھی کسی نے نہیں سوچا ۔میں جب لاہور کے درمیان سے گزرتی ہوئی نہر کے خوبصورت کناروں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں اگر میانوالی شہر میں تھل کینال کے کناروں کو ایسا ہی بنا دیا جائے تو میانوالی کتنا خوبصورت بن جائے گا۔خواب دیکھنے کا تو ہم اہل ِ میانوالی کوبھی حق حاصل ہے ۔اس وقت محکمہ آبپاشی کے صوبائی وزیر امانت اللہ شادی خیل بھی میانوالی کے ہیں ۔ممکن ہے انہوں نے کچھ سوچا ہومگر پنجاب میں بیچارے بے اختیاروزیروں کی بات کب اُن کے محکموں کے سیکرٹری سنتے ہیں ۔
کوئی ڈبل روڈ میانوالی کے قر ب و جوار سے نہیں گزرتی پیپلز پارٹی کی حکومت میں اُس وقت کے ڈپٹی اسپیکرفیصل کریم کنڈی اور چکوال کے ایم این اے سردار ممتاز خان ٹمن نے کوشش کی تھی کہ بلکسر انٹر چینج سے میانوالی اور آگےڈیرہ اسماعیل خان تک ڈبل روڈ بنائی جائے۔
وزیر اعظم گیلانی نے بنا نے کی منظور ی بھی دےدی تھی مگرپنجاب حکومت نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو این او سی نہیں دیا تھا۔اب تو صوبے اور وفاق دونوں جگہوں پر نون لیگ کی حکومت ہے کیا اب یہ خواب پورا نہیں ہوسکتا ۔شاید نہیں ہوسکتاکیونکہ درمیان میں عمران خان کامیانوالی پڑتا ہے۔میرا وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کےلئے مشورہ ہے کہ وہ میانوالی کےلئے خصوصی فنڈ جاری کرکے اس تاثر کو غلط ثابت کریں ۔کیا کروں ظفر خان نیازی کی طرح مجھے بھی
وفا کی آس اُسی یارِ بے وفا سے ہے
بدن ہے راکھ مگر دوستی ہوا سے ہے
میانوالی سے تعلق رکھنےوالے خوبصورت شاعر اور افسانہ نگارظفر خان نیازی بھی ہمیں چھوڑ گئے ہیں ۔مجھے جب پی ٹی وی کے دوست رشید خان نے ان کی وفات کی خبر دی تھی تو میری آنکھوں کے سامنے چند دن پہلے کاایک منظر گھوم گیا جب میں ،شعیب بن عزیز اور اسلم خان ان کے گھر گئے تھے اور دیر تک ان سے ان کی روشنی اور خوشبو سے بھری ہوئی شاعری سنتے رہے تھے ۔ان کے دل میں میانوالی دھڑکتا تھا ۔یقیناََ ان کی موت سارے میانوالی کی موت ہے ۔جیسے ایک عالم کی موت پورےزمانے کی موت ہوتی ہے ۔