• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوا زشریف کی عدالت عظمیٰ کے 28جولائی کے فیصلے پر سخت تنقید جاری

Todays Print

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)معزول وزیر اعظم نوا زشریف کی عدالت عظمیٰ کے 28جولائی کے فیصلے پر سخت تنقید جاری ہے۔سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عوام کو حق ہے کہ وہ کسی کو نکالیں یا نہ نکالیں ، 5افراد کو اس کا کوئی حق نہیں۔وہ سمتوں سے ڈالے جانے والے دبائو کے باوجود وہ اپنی رائے کا اظہار کیے جارہے ہیں۔پاناما کیس کے حوالے سے جاری رہنے والا لگ بھگ ڈیڑھ سال کا احتساب بھی انہیں اپنے موقف کو تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکا ہے۔وہ اب بھی عدالتی کارروائیوں کا سامنا کررہے ہیں ، تاہم انہیں جیسے ہی موقع ملتا ہے وہ اپنے مخصوص انداز میں تحفظات کا اظہار کرتےہیں۔مسلم لیگ(ن)کے کچھ رہنمائوں کی جانب سے انہیں مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ اپنی تنقید کے انداز میں تھوڑی نرمی لائیں تاہم اس کے باوجود وہ ان کا ذہن تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔یہاں تک کے ن لیگ کے کچھ کمزور عناصر نے کھل کر ان کی تنقید پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہےاور کہا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف محاز آرائی نہ کریں ۔تاہم، نواز شریف انہیں بھی خاطر میں نہیں لائے۔دیگر سیاست دانوں کی طرح نواز شریف اپنے مخالفین کے خلاف زیادہ بات نہیں کرتے ہیں ، تاہم وہ جب کبھی بھی 28جولائی کے فیصلے پر بات کرتے ہیں ، وہ مکمل تبدیل ہوجاتے ہیں۔انہوں نے پہلے دن اس فیصلے کے خلاف جو طریقہ کا اپنایا تھا ، اب بھی اسی پر قائم ہیں۔پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کا کوئٹہ میں کامیاب جلسے نے بھی سابق وزیر اعظم کو عوامی سطح پر مزیدمقبول بنایاہے کیوں کہ اس میں ن لیگ کے کارکن بھی شریک ہوئے تھے۔نواز شریف نے کچھ عرصہ قبل مانسہرہ میں پہلی ریلی سے خطاب کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ مائنس پلس فارمولا گزشتہ 70برسوں سے جاری ہے، جسے ختم ہونا چاہیئے تاکہ پاکستان ترقی کرے اور جمہوریت کو فروغ حاصل ہو۔ان کے خیال میں یہ عوام کا حق ہے کہ وہ کسی بھی سیاست دان کو مائنس یا پلس کرے ۔بہت سی معروف سیاسی جماعتیں اس مائنس پلس کے کھیل سے متاثر ہوئی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو بار بار نشانہ بنایا گیا ہے۔بانی متحدہ کو اپنی پاکستان مخالف تقریر کے سبب اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ نواز شریف کو سیاست سے دورکرنے کی کوشش کی گئی ہو، مشرف کے دور میں بھی انہیں پارٹی قیادت سے دور رکھا گیا تھا، یہاں تک کے اگر کبھی یہ طریقے کامیاب بھی ہوئے تو جز وقتی ہی ثابت ہوئے۔پانچ رکنی جے آئی ٹی میں مختلف اداروں کے ارکان شامل کیے گئے، جنہیں ججوں نے ڈائمنڈ ٹھہرایا، تاہم نواز شریف ان پر سخت تنقید کرتے رہے۔یہی رویہ ان کا ججوں کے ساتھ بھی رہا ، جن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ خود تو ڈکٹیٹر کی ساتھ وفاداری کا حلف اٹھاتے رہے ، تاہم انہیں بددیانت قراردے دیا۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اگر انہیں 5ہزار روپے کی کرپشن پر بھی نااہل قراردیا جاتا تو وہ چپ چاپ گھرچلے جاتے ۔لیکن انہوں نے عوام کے ایک پیسے کا بھی غلط استعمال نہیں کیا اور انہیں اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخوا نہ لینے کی سزا دی گئی۔

تازہ ترین