آزاد ماہرین اقتصادیات کے مطابق، پاکستان کو ایک بہت سنگین اقتصادی صورت حال کا سامنا ہے ۔ ملک بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور مالی بدانتظامی کی وجہ سے معاشی زوال کا شکارہے ۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے عد بھاری فنڈز صوبوں کو منتقل کر دئیے گئے جس نے ہماری پریشانیوں میں مزید اضافہ کیاہے ۔اس رقم کا کثیر حصہ بدعنوانی کی نظر ہوکر غیر ملکی اثاثوں کی شکل میں منتقل ہو گیا ہے اور ایک اندازےکے مطابق یہ رقم پچاس ہزارارب روپیہ کے برابر ہے ۔ وفاق اس ترمیم کے نتیجے میں کمزور ہو چکا ہے کیونکہ جو رقم ڈیموں کی تعمیر کے لئے، یا تعلیم اور صحت کے لئے استعمال کی جانی تھی وہ ضائع ہو چکی ہے۔ غرض ملک کے ارباب اختیارنے جمہوریت کو ایک تماشا بنا دیا ہے ۔ میں نے پچھلے ایک مضمون میں صدارتی نظام جمہوریت کے حق میں دلائل پیش کئے تھے جس کے خلاف جناب حامد میر صاحب نے ایک مقالہ لکھا ہے اور صدارتی نظام جمہوریت کو آمرانہ نظام سے غلط منسوب کر لیا ہے ۔ دراصل پاکستان میں کبھی صدارتی نظام جمہوریت رہا ہی نہیں۔یہاں فوجی حکومتیں ضرور آئیں لیکن وہ کسی بھی لحاظ سے صدارتی جمہوریت نہیں کہلائی جا سکتیں ۔ صدارتی نظام میں صدر باقاعدہ عام ووٹ کے ذریعے منتخب ہوتا ہے جو پاکستان میں کبھی نہیں ہوا۔پاکستان میں ’’جمہوریت ‘‘کے نام پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی جاتی رہی ہے اور نتیجے میں فوج کوکئی بار مداخلت کرنا پڑی ہے ۔ صدارتی نظام جمہوریت میں پارلیمنٹ سے وزیر نہیں چنے جاتے بلکہ ملک کا صدر اپنی مرضی سے ملک کے بہترین ماہرین کو وزیر بناتا ہےجس سے بدعنوانی ختم ہو جاتی ہے کیونکہ بدعنوان اشخاص کے لئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ پہلے کروڑوں خرچ کرکے پارلیمنٹ کا رکن بنو اور پھر وزیر بن کر قوم سے اربوں روپے وصول کرو۔ حامد میر صاحب کوتنقید کرنے سے پہلے تھوڑی سی تحقیق کر لینی چاہیے تھی کہ صدارتی نظام جمہوریت کیا ہوتی ہے۔یہ فوجی آمریت نہیں ہوتی، اور 50سےزیادہ ممالک میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ جناب حامد میر صاحب سے نہایت ادب سے عرض ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک جن میں امریکہ اور فرانس شامل ہیں وہاں صدارتی نظام جمہوریت کامیابی سے چل رہا ہے۔ حامد میر صاحب نے صدارتی نظام کو آمریت سے جوڑ دیا ہے جس سے مجھے اختلاف ہے۔ 2019سے تر کی بھی یہ نظام اپنا رہا ہے۔ قائد اعظم نے اپنی زندگی میں ہی بھانپ لیا تھا کہ پاکستان مین جو بڑے جاگیر دار اور زمیندار ہیں وہ لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہو کر ملک کو برباد کر دیں گے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ ’’ پاکستان میں برطانیہ کے طرز کا پارلیمانی نظام جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ یہاں صدارتی نظام جمہوریت زیادہ کامیاب رہے گا ‘ میں نے حال ہی میں قومی دفاع جامعہ (National Defense University ) کے ذریعے قائد اعظم کی تحریر کی تصدیق بھی کرائی ہے کہ یہ واقعی انکی تحریر ہے۔
اس نام نہاد جمہوریت کی وجہ سے پاکستان کو آج بڑے پیمانے پر شدید مسائل کا سامنا ہے ۔جن میں بڑھتی ہوئی غربت، امن و امان کی سنگین صورتحال، بڑے پیمانے پر نا خواندگی صنعتی شعبوں کابند ہونا، غیرمؤثر انصاف اور بے تحاشہ بدعنوانی شامل ہیں۔ ایک اہم عنصر جس نے اس صورت حال کو مزید ابتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ ہے ہمارا بدترین تعلیمی نظام ، بالخصوص اسکول اور کالج کی سطح پر تعلیم کی افسوسناک حالت ہے ۔ البتہ2002ء تا2008 ء میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اعلی تعلیمی کمیشن کے قیام کی بدولت شاندار پیش رفت ہوئی ۔ 2008 ء میں سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے سر براہ نے ایک اخباری بیان میں اس دور کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے سنہری دور کےطور پر رقم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کمیشن ، برائےسائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی کے سابق چیئرمین، پروفیسر مائیکل روڈے کے مطابق: ’’ اس دور میں انتہائی تیزرفتار پیش رفت ہوئی تھی جس نے پاکستان کو متعدد پہلوؤں میں دیگر ممالک سے ممتاز کیا ہے ‘‘، مگر صد افسوس یہ ترقی بہت مختصر عرصے تک قائم رہ سکی جس کی وجہ گزشتہ حکومت کی جانب سےاعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں شدید کٹوتی تھی ۔
اگر چہ موجودہ حکومت نےابتداء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کردہ رقم میں اضافہ کیا ہے لیکن اچانک گزشتہ مالی سال کے دوران ترقیاتی بجٹ میں ساٹھ فیصد تک کمی کردی گئی تھی لہٰذا اس کمی کے باعث یہ مختص کرد ہ رقم پی پی پی کی حکومت کے دوران مختص کردہ کم ترین رقم سے بھی کم ہو گئی ہے ۔ پاکستان آج اپنی جی ڈی پی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم پر خرچ کرتاہے ۔ اس لئے ہمارا شمار تعلیم پر خرچ کے لحاظ سے دنیا کے سب سے نچلے دس ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ ہمارے جاگیر دارانہ نظام حکومت کا نتیجہ ہے اور یہ جان بوجھ کرکیا گیا ہے کیونکہ ایک ناخواندہ آبادی کو با آسانی بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اور بار بار ووٹ بدعنوان افراد لے کر حکومت میں آجاتے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر بدعنوان سیاستدان ،جاگیرداروں کی حمایت اور انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے بار بار صاحب اقتدار ہو رہے ہیں (پچھلے انتخابات میں 45 فیصد ووٹ جعلی ڈالے گئےتھے)۔ حالات اسقدر ابتر ہو گئے ہیں کہ ہر ماہ ایک بڑی تعداد میں غریب افراد زندگی کی جنگ سے ہار کر خود کشی کر رہےہیں۔ صنعتی جمود اور روزگار کے مواقع کی کمی کی وجہ سے ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ڈکیتیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہے۔کچھ غیر ملکی ایجنسیاں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان اسی طرح خودکشی کے راستے پر چلتا رہے تاکہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی سودا بازی پر مجبور ہوجائے۔اس لئے یہ ایجنسیاں لوگوں کو بیو قوف بنانے کےلئے یہ شائع کررہی ہیں کہ پاکستان تیزی سے ترقی کر رہاہے جبکہ اصل صورت حال اس سے بالکل برعکس ہے اور ہم قر ضوں میں ڈوب چکے ہیں ۔
آج کی دنیا میں صرف وہ ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں جو بڑے پیمانے پر تعلیم سائنس، انجینئرنگ اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ امیر اور غریب ممالک کے درمیان تقسیم محض ایک’’علم کی تقسیم‘‘ ہو گئی ہے آج وہی ممالک ترقی کی دوڑ کے شہسوار اور امیر ہیں جنہوں نے اعلی ترین تحقیقی ادارے قائم کر کے جدید شعبوں میں مہارت حاصل کر لی ہے اور اسےنئی مصنوعات کی ایجاد اور دیگر عوامل کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اور وہ ممالک جو صرف ٹیکنالوجی کے درآمد کنندگان ہیں وہ غریب رہ گئے ہیں ۔حتیٰ کہ بہت سےچھوٹے ممالک جیسے فن لینڈ اور آسٹریا جن کی آبادی کراچی کی آبادی کے مقابلے میں صرف چوتھائی یا نصف ہے ان کی برآمدات 22 کروڑ کی آبادی اور ایٹمی طاقت کے حامل ملک ، پاکستان کی بر آمدات سےکئی گنا زیادہ ہیں ۔
دور حاضر میں تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں اور ترقی یافتہ ممالک میں نجی شعبوں برائے تحقیق و ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔آج چین میں تقریباً 70فیصد تحقیق و ترقی کے اخراجات نجی شعبوں سے کئے جاتے ہیں ۔ یہ تناسب ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تقریبا 68 فی صد ، کوریا میں 75 فیصد اور جرمنی میں تقریباً 70 فیصد ہے لیکن پاکستان سمیت زیادہ تر او آئی سی کے رکن ممالک میں یہ صرف 1فیصد سے بھی کم ہے ۔ اس کی اصل وجہ او آئی سے کے رکن ممالک کے رہنماؤں میں اس شعور اور بصارت کا فقدان ہے کہ قوم کی ترقی میں تحقیق و ترقی کے نجی شعبوں کا کس قدر اہم کردار ہے ۔ کیونکہ زیادہ تر حکومتی فنڈز علم پر مبنی معیشت قائم کرنے کاکو ئی واضح اور جامع طریقہ کا ر نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جا تے ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کو اب بدعنوان سیاست دانوں کو سخت سے سخت سزائیں دینی چاہئے تاکہ ہم دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوپائیں ۔ اگر ہم چند مزید ماہ اسی ڈگر پر چلتے رہے تو پھر معاملات مکمل طور پر قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ بدعنوان سیاست دانوں کو پکڑا جا ناچاہئے، لوٹا ہوا مال ملک میں واپس آنا چاہئے اور فوجی عدالتوں کے ذریعے مثالی سزائیں دی جانی چاہئے ۔ اسی طرح ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے بدعنوان عناصرکو بھی عبرتناک سزائیں ملنی چاہئیں کیونکہ یہ سیا ستدانوں کا آلہ کار بن کر ہمارے پیارے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے ۔ آئین میں مناسب ترامیم کے ذریعے کم از کم دس سال کی مدت کے لئے صدارتی نظام جمہوریت کے تحت تکنیکی ماہرین کی حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ تبدیلی روشن خیال شہریوں کے ساتھ مشاورت کے ذریعے جائز قانونی تبدیلیوں کے بعد نافذ العمل کی جائے۔ مو جودہ جاگیردارانہ نظام نے ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔ اس نظام سے بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ۔