• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں گزشتہ کئی برس سے امتحانات میں نقل کے رجحان میں تشویشناک حد تک اضافہ ملکی تعلیمی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس امر کا متقاضی ہے کہ موجودہ سسٹم میں بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔نقل کی روک تھام کیلئے ماضی میں بھی مختلف حکومتی ادوار میں کئی اقدامات اٹھائے گئے۔ طلبا کی جامہ تلاشی سمیت کچھ امتحانی مراکز میں نگرانی کیلئے کیمروں کی تنصیب بھی عمل میں آئی۔ ایسی ہی ایک تجویز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے حالیہ اجلاس میںبھی پیش کی گئی جس میں امتحانات میں نقل کیخلاف قائم کمیٹی کے رکن ذوالفقار علی بھٹی نے ملک بھرکے امتحانی سینٹرز میں سیکورٹی کیمرے لگانے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ان کیمروں کا مانیٹرنگ روم فیڈرل بورڈ میں قائم کیا جائے۔دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے کچھ مراکز میں جو کیمرے لگائے گئے تھے ان سے نقل کا سلسلہ روکنے میں خاص مدد نہ مل سکی کیونکہ ان کیمروں کو کسی بھی وقت غیر موثر کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امتحانی عملے کی ملی بھگت سے سفارش و رشوت کے عوض مخصوص طلبا سے علیحدہ کمروں میں پرچے لئے جاتے ہیں۔کچھ پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے مرکز کے عملے سے ساز باز کرکے اپنے طالب علموں کو نقل کرانے کی بھی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ اسی طرح ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب کبھی حکومتی سطح پر نقل کلچر کی روک تھام کیلئے سخت ایکشن لیا گیا تو طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کا پول کھلنے کے ساتھ نظام تعلیم میں موجود کھوکھلا پن بھی مزید عیاں ہوگیا۔ کراچی بورڈ کے حالیہ انٹر آرٹس گروپ کے نتائج اس کا بین ثبوت ہیں۔جس میں نقل کے مواقع میسر نہ آنے پر طلبا کی کثیر تعداد فیل ہوئی۔ضروری ہوگیا ہے کہ نقل کے رجحان پر قابو پانے کیلئے نہ صرف امتحانی عملے کو پابند کیا جائے بلکہ مجموعی طور پر تعلیمی نصاب کو رٹا سسٹم سے نجات دلاتے ہوئے جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے حکمت عملی وضع کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین