پیارے مخدوم صاحب !
السلام علیکم کے بعد عرض ہے کہ آپ کے حالیہ ارشاداتِ گرامی کی تفصیل بذریعہ اخبارات و ٹیلی ویژن جان کر آدھا لندن# ورطہٴ حیرت میں ڈوب چکا ہے اور اگر ڈاکٹر صاحب نے مجھے بیڈ ریسٹ کی تلقین نہ کر رکھی ہوتی تو میرا حال بھی وہی ہوتا۔ تمام پارٹی اکابرین آپ کی اس اندوہناک حرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ مثلاً چوہدری نثار کا خیال ہے کہ ہاکروں کے انداز میں تقریریں کر کر کے آپ کا سر بول گیا ہے اور آپ یکایک یاوہ گوئی پر اتر آئے ہیں البتہ شہباز صاحب کی سوچ قدرے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دورانِ غسل آپ کے سر میں ٹونٹی کچھ اس شدت کے ساتھ لگی ہے کہ آپ درد سے بلبلا اٹھے ہوں گے ۔
بہرحال ، شہباز صاحب کی بات سن کر میرا دل بے چین ہو گیا ہے اور میں لگاتار حیران ہوتا چلا جا رہا ہوں کہ آخر آپ کو کیا ہو گیا ہے، آپ کم از کم ایک سو دس سال کے تو ضرور ہو چکے ہوں گے مگر آپ کو ابھی تک نہانے دھونے کے آداب ہی نہیں آئے۔ ایک بچہ بھی صابن اٹھاتے وقت اتنی احتیاط ضرور کرتا ہے کہ اٹھتے وقت ٹونٹی یا دیگر آلاتِ ضرب سر میں نہ لگیں۔ مگر آپ اس قدر احمقانہ انداز میں نہاتے ہیں کہ آپ کو نفع نقصان کی تمیز ہی نہیں رہتی۔ آپ کو
یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سی بات کرنی ہے اور کون سی نہیں۔
ضیاء الحق اور بھٹو سے متعلق آپ کے افکارِ عالیہ جان کر میں ایک بار پھر شہباز صاحب کی فہم و فراست کا قائل ہو گیا ہوں اور ان کی سو فیصد تائید کرتا ہوں کہ آپ کی دماغی کیفیت ، واقعی کسی گہری چوٹ کا نتیجہ ہی ہو سکتی ہے اور دھیان لامحالہ غسل خانے کی ٹونٹی کی طرف ہی جاتا ہے۔ حضرت صاحب، آپ کی یہ بات تو خیر پلّے پڑتی ہے کہ ضیاء الحق کے ہاتھ پر بیعت کرنا واقعی ایک فضول حرکت تھی جس کا ارتکاب آپ نے بھی کیا اور ہم نے بھی، مگر یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ بھٹو صاحب ہی ایک عظیم الشان لیڈر ہو گزرے ہیں ہماری سیاست میں۔ پیر جی ، ذرا غور سے تاریخ کا مطالعہ کریں، بھٹو صاحب ضیاء سے بھی بڑے مچھندر کے کندھوں پر سوار ہو کر دنیائے سیاست میں وارد ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نام نہاد جمہوری دور کو تاریخ کی بدترین آمریت کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ پہلے مجھے بھی ان باتوں کا علم نہیں تھا مگر پھر دائیں بازو کے ایک دو اخباری مالکان اور نسیم حجازی زدہ ایک آدھ کالم نگار نے میرے ساتھ راہ و رسم بڑھا کر میرے علم میں بے پناہ اضافہ کیا۔ اب میں ماشاء اللہ سے ڈائیگرام بنا کر اور چارٹ وغیرہ کی مدد سے بھی ثابت کر سکتا ہوں کہ حضرت ضیاء الحق صاحب ایک برگزیدہ جرنیل اور پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ آپ اگر حکمرانی کے جھنجھٹ میں نہ پڑتے تو آپ دنیائے معرفت میں بھی بڑی تکریم پاتے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ بعض عاقبت نااندیش لوگ سر میں ٹونٹیاں کھا کر اس عظیم فاتح ، بے مثل قلندر، پیر کامل اور صاحب ِعلم ہستی (مراد حضرت ضیاء الحق ہیں ، کہیں اپنی روایتی بے وقوفی کے سبب مراد حضرت اورنگ زیب عالمگیر نہ لے لینا )کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگتے ہیں۔ آپ کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ کیا کہہ دیں ۔ اوپر سے آواز واقعی آپ کی ہاکروں والی ہے۔
آپ نے جاتی امراء میں واقع ہمارے غریب خانے کو محل مناروں کے ساتھ تشبیہ دے کر اپنی بیوقوفی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے حالانکہ اس میں محل والی بات دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ علاوہ ازیں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ہم اپنی دولت پاکستان واپس لائیں۔ قسم اللہ پاک کی، اس سے زیادہ حماقت خیز مشورہ مجھے آج تک کسی نے نہیں دیا حالانکہ میں چوبیس گھنٹے احمق دوستوں کے جلو میں ہی رہتا ہوں، ہیں جی؟
بندئہ خدا ، یہ دولت ہمارے خاندان نے دن رات ایک کر کے کمائی ہے۔ ہم آپ کی طرح فقط تعویز گنڈے اور دم درود کے ساتھ ہی امیر نہیں ہوئے۔ میں عنقریب واپس پہنچ کر انشاء اللہ آپ سے وضاحت طلب کروں گا اور یاد رہے کہ یہ وضاحت آپ کو تحریری شکل میں دینی پڑے گی کہ مجھے آپ کی بات بالکل سمجھ نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق آپ کو ن لیگ کا چوہدری شجاعت کہہ کے پکارتا ہے!
اور تو کوئی خاص بات نہیں جو لائق تحریر ہو، اپنا بے حد خیال رکھیں اور ٹونٹی کی جگہ شاور استعمال کریں تاکہ ہم دونوں کا فائدہ ہو۔
والسلام
آپ کا
خیر اندیش#