آج شام بھارتی ریاست گجرات میں مرحلہ وار انتخابات تو مکمل ہوجائیں گے لیکن انتخابی عمل میں پاکستان پر مداخلت کا تازہ الزام شاید مزید کچھ عرصہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان کشیدگی کا سبب بنا رہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے لگایا گیا یہ الزام محض ایک سیاسی پروپیگنڈا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ گجرات اپنے جغرافیائی محل وقوع سمیت چند اٹوٹ حقائق کے سبب پاکستان سے ہمیشہ جڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
گجرات بلاشبہ تاریخی، سیاسی اور تجارتی اعتبار سے ایک اہم ریاست ہے۔ یہ سرزمین برصغیر میں شہری تمدّن کے ارتقا کا سر چشمہ ہے! اس ریاست کو صنعتی اور تعلیمی میدان میں ہمیشہ امتیازی حیثیت حاصل رہی ہے اور اسی لئے یہ تحریک آزادی کے سب سے بااثر رہ نمائوں، یعنی قائداعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی، کی آبائی سرزمین بھی ہے۔ کہتے ہیں کہ 1607میں ولیم ہاکنز نامی ایک انگریز نے ہندوستان میں پہلا برطانوی کارخانہ قائم کرنے کے لئے گجرات ہی کے ایک مشہور شہر سورت کا انتخاب کیا تھا۔ یہاں صدیوں سے آباد گجراتی مسلمان (میمن)، کھوجہ، کونکن، اسماعیلی اور بوہرہ برادری کے لوگ کراچی میں بھی برسوں سے آباد ہیں۔ پارسی سب سے پہلے گجرات ہی آکر بسے۔ اِنہوں نے ایک دور میں کراچی، ممبئی اور گجرات میں شاندار عمارتیں اور اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے قائم کئے۔ یہ ریاست پاک و ہند کے معروف صنعت کاروں، فنکاروں، ادیبوں اور کھلاڑیوں کی آبائی سرزمین بھی ہے۔ لیکن حالیہ انتخابی مہم کے دوران یہ ریاست بی جے پی اور کانگریس کے درمیان تلخ بیان بازی اور دشنام طرازی کا مرکز بنی رہی۔
یہ سچ ہے کہ آج کے نئے گجرات میں ووٹرز کے ایک بڑے حلقے میں پاکستان کے خلاف دو جنگیں لڑنے والی کانگریس کو شعوری اور غیر شعوری سطح پر ایک ’مسلم جماعت‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ہندو قوم پرستی کے رجحانات میں نسبتاًً زیادہ شدت پائی جاتی ہے اور اسی لئے ریاست کے سب سے چہیتے سپوت نریندرا مودی کوئی بارہ برس تک گجرات کے وزیراعلیٰ رہے جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی تقریباً بائیس برس تک بلاروک ٹوک یہاں راج کرتی رہی ہے۔
انتخابی مہم کے آخری دن بھی بی جے پی اور کانگریس رہ نمائوں کے درمیان انتہائی تلخ بیانات کا تبادلہ جاری رہا، حد یہ کہ ایک جانب کانگریس رہ نما مانی شنکر آئر جانے کس کیفیت میں نریندر مودی کے لئے ’’نیچ‘‘ کا لفظ استعمال کرگئے، اور دوسری جانب کانگریس کے حمایت یافتہ ’’پاٹیدار‘‘ کمیونٹی کے نوجوان رہ نما ہردِیک پاٹل کو اُن ہی کی ایک متنازعہ ویڈیو کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ لہٰٰذا نو دسمبر کے دن انتخابات کے پہلے مرحلے میں پولنگ کے دوران بھی یہ کشیدگی جاری رہی۔
بی جے پی کو راہول گاندھی کا گجرات کے مندروں میں بار بار جانا اچھا نہیں لگا۔ راہول پر الزام ہے کہ وہ دراصل ریاست کے اکثریتی ہندو ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ پچھلے دو عشروں میں مسلسل ناکام انتخابی مہمات کے پیش نظر اس بار کانگریس نے خاص طور پر مسلمان اور کاسٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی توجہ حاصل کر کے انتخابات میں جان ڈال دی ہے۔ آج شام تک پولنگ مکمل ہو جانے کے بعد 18دسمبر کو ووٹوں کی باقاعدہ گنتی کی جائے گی اور تاثر ہے کہ کانگریس کی تازہ مہمات ان انتخابات میں کسی حد تک بی جے پی کا سحر توڑنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔
ایک سروے کے مطابق سال 2012کے انتخابات میں 116نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی اس بار 104 یا 105 نشستیں حاصل کرسکتی ہے جب کہ یہاں حکومت سازی کے لئے صرف 92نشستیں درکار ہیں۔ کانگریس کی گزشتہ انتخابات میں 60نشستوں میں اس بار 12 سے13 نشستوں کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ نو دسمبر کو پہلے مرحلے میں ریاست کی مجموعی طور پر 182میں سے 89نشستوں پر پولنگ ہوئی تھی، آج باقی نشستوں پر پولنگ کی صورت میں یہ مرحلہ وار انتخابی عمل مکمل ہوجائے گا۔
مہم کے دوران حالات اس وقت انتہائی کشیدہ ہوگئے جب گجرات میں ایک ریلی کے دوران نریندر مودی نے الزام لگایا کہ پاکستان گجرات کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ بے بنیاد الزام دلّی میں کانگریس رہ نما منی شنکر آئر کی رہائش گاہ پر ایک نشست کے انعقاد کے فوراًً بعد لگا یا گیا۔ سبب صرف یہ تھا کہ اِس نشست میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری موجود تھے۔ شاید بی جے پی کو خدشہ ہے کہ نشست میں سابق پاکستانی وزیر کی موجودگی مسلم ووٹرز پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ مانی شنکر آئر کا ’’نیچ‘‘ کہنا مودی جی کے اِسی بیان کا ردعمل تھا!
اُدھر بھارتی صحافی راوش کمار نے نریندر مودی کے بیان پر ایک ٹی وی شو میں کہا کہ نشست میں اگر کوئی سازش ہورہی تھی تو بی جے پی حکومت کو پہلے سے علم کیوں نہیں تھا؟ ان کا سوال ہے کہ نشست میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ بھی موجود تھے، وہ اب تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے؟ اور یہ بھی کہ نشست میں شریک خورشید قصوری کو مودی حکومت نے ویزا کیوں جاری کیاتھا؟
اِس سے قبل بہار کے انتخابات میں بھی پاکستان کا بہت نام لیا جا رہا تھا۔ وہاں مخالفین کے ایک مضبوط اتحاد کے باعث بی جے پی کی کشتی انتخابات سے پہلے ہی ڈولتی دکھائی دے رہی تھی۔ اُس پر بی جے پی لیڈر امیت شاہ نے بیان داغ دیا کہ اِن کی پارٹی ہارے گی تو بہار میں، لیکن پٹاخے پاکستان میں پھوڑے جائیں گے !
مہم کے دوران مودی جی کا ’’پاکستان‘‘ اور ’’مسلمان‘‘ پر بہت زور رہا، نتیجتاً ریاست میں ترقیاتی منصوبوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حد تو یہ ہوئی کہ بی جے پی کے اتحادی شیو سینا، اکالی دَل اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار تک اِس مہم سے خود کو دور رکھے رہے۔ شیو سینا کا موقف ہے کہ بی جے پی ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دینے کے بجائے ملک کومغلیہ دور میں واپس دھکیلنے پر تلی ہوئی ہے۔ اُدھر بہار میں کامیاب ترقیاتی منصوبوں کے باعث شہرت پانے والے نتیش کمار کے تجربات سے بھی پوری مہم میں کوئی استفادہ نہیں کیا گیا۔ مودی جی کے مشہور ’’گجرات ماڈل‘‘ کے بارے میں تو اب یہ کہا جارہا ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی نعرہ تھا۔ بھارتی میڈیا اب کھل کر سوال اُٹھا رہا ہے کہ اگر گجرات ماڈل میں کوئی دم خم تھا تو کانگریس کو مسلم اور پاٹیدار ووٹرز کی جانب سے مثبت اشارے کیوں مل رہے ہیں ؟
دلچسپ اتفاق یہ کہ سال 2002، 2007اور 2012 کے عام انتخابات میں کانگریس اور بی جے پی نے ہر بار علی الترتیب تقریباً 40اور 49فی صد ووٹ حاصل کئے تھے۔ تجزیہ ہے کہ ووٹنگ رجحانات میں معمولی سی تبدیلی کسی حد تک کانگریس کے حق میں جاسکتی ہے۔ لیکن اٹھارہ دسمبر کو ووٹوں کی گنتی کے دوران اگر ایسی کوئی معمولی تبدیلی دیکھنے کو ملی، تو اِس معمولی سی تبدیلی کوسال 2019کے عام انتخابات میں کسی غیر معمولی تبدیلی کے رونما ہونے کا پیشگی اشارہ سمجھا جا سکتا ہے۔