برصغیر کی تقسیم کے دوران جالندھر کے ایک مسلم محلے سے ہمارے گھرانے کے فرار سے شروع ہونے والی داستان خاندان کے لئے بہت اہم تھی۔ ہم نے یہ کہانی سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں لحاف کے اندر دُبک کر اور گرمیوں میں چھڑکائو کئے گئے صحن میں، تاروں کی چھت تلے، چارپائیوں پر لیٹ کر اِسے بارہا سنا۔
بزرگوں کے مطابق اِکا دُکا فسادات کی خبریں آتی تھیں مگر کسے خیال تھا کہ گھر بار چھوڑ کر اچانک بھاگنا پڑے گا۔ اُس روز حسبِ معمول ناشتہ تیار ہو رہا تھا کہ باہر گلی میں بھگدڑ مچ گئی۔ محلے والوں کو پکی خبر ملی تھی کہ حملہ ہونے والا ہے۔ فسادیوں کا خون آشام جتھہ، کلہاڑیوں اور دوسرے ہتھیاروں سے لیس، ہمارے محلے کی طرف آ رہا تھا۔ لوگ گھر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ ناشتے کا ہوش نہ رہا۔ مردوں نے حکم دیا، عورتوں نے سر اور چہرے پر خاک ڈالی تاکہ بدصورت نظر آئیں اور بے سر و سامان گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ میرے ماموں انڈیا کی پوسٹل سروس میں اسسٹنٹ پوسٹ ماسٹر جنرل تھے۔ اُنہیں علم تھا کہ فوج کہاں تعینات ہے۔ سرکاری ملازمت کی سہولت سے فائدہ اُٹھایا اور خاندان آرمی کے ایک ٹرک میں بحفاظت لاہور کے والٹن کیمپ پہنچ گیا۔ اِس سفر کی کہانی میں جابجا مسلح سکھ جتھوں کے حملوں کا حال سننے کو ملتا۔ بتایا جاتا کہ آرمی ٹرک کا ڈرائیور بھی سکھ تھا۔ جب یہ سوال پوچھا جاتا کہ اُن جتھوں نے اُس ٹرک پر بھی حملہ کیا، تو جواب میں ہماری ماں فخر سے کہتیں ’’آرمی کا ٹرک دیکھ کر سب فسادی بھاگ جاتے تھے۔‘‘ پھر سوال پوچھا جاتا کہ سکھ ڈرائیور نے فسادیوں کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ جواب ملتا کہ سکھ ڈرائیور تو آرمی میں تھا اور فوج کے لوگ ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں۔ پھر کچھ وقفے کے بعد کہتیں ’’خدا کا شکر ہے ہم فوج کی حفاظت میں تھے۔‘‘
فوج کے بارے میں ایک بہت اعلیٰ اور ارفع تاثر لئے راقم نے لڑکپن میں قدم رکھا۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخلے کا بھوت شاید آرمی سے اُسی رومانس کا اثر تھا۔ اور پھر 1965ء کی جنگ ہوئی، عوام کی فوج سے محبت بلکہ عقیدت کے مناظر آج تک ذہن پر نقش ہیں۔ 1965ء سے 1971ء کی خانہ جنگی اور پھر ضیاء الحق کے مارشل لا سے گزر کر، پاک فوج سے عوام کی محبت کارگل کی پہاڑیوں سے اُتر کر مشرف دور میں داخل ہوئی۔ اِن نشیب و فراز پر سفر کے زخم کھانے کے باوجود آج بھی عوامی تاثر میں فوج کا ادارہ ہی سب سے زیادہ قابلِ اعتبار سمجھا جاتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں مسلم ممالک کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کیا جا رہا ہے وہ دیکھنے کے بعد ایک منظم اور طاقتور فوج کی اہمیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ جب دُشمن یہ دیکھتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سے لیس اِس منظم فوج سے جنگ نہیں ہو سکتی تو اُسے عوامی حمایت سے محروم کرنے کی حکمت ِ عملی ترتیب دیتا ہے۔ بیرونِ ملک اخبارات میں پاکستانی فوج کو بدنام کرنے کے لئے اشتہار چھپوانے کے باوجود دُشمن کو کامیابی نہ ملی۔ مگر آج کل دہشت گردوں اور فسادیوں سے جنگ میں مصروف ہماری فوج کی سیاسی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ سنجیدہ کالم نگار ہوں یا ٹیلی وژن کے تجزیہ کار، بلکہ کبھی کبھار تو اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی، اِس الزام کو تقویت دیتے ہیں۔ اہلِ نظر کیلئے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں علمِ سیاسیات پڑھنا شروع کیا تو فوج کے علاوہ ملک کے دوسرے اہم قومی ادارے سپریم کورٹ سے روشناس ہوا۔ پتا چلا کہ وفاقی نظامِ حکومت، سپریم کورٹ کے بغیر نہیں چل سکتا۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان اختیارات کی تقسیم آئین میں درج ہوتی ہے۔ اختلاف کی صورت میں سپریم کورٹ ایک غیر جانبدار ادارے کی حیثیت سے آئین کے مطابق فیصلہ دیتا ہے اور وہ حتمی ہوتا ہے۔ 1973ء کا آئین بنا تو اُمید بندھی کہ آئندہ سپریم کورٹ وفاق کے محافظ کا کردار ادا کرے گا، مگر مشکل مرحلوں پر عوامی اُمنگوں اور عدالتی فیصلوں کے درمیان فاصلہ قائم رہا۔ نظریہ ضرورت کا استعمال قوم کو آج تک ہضم نہیں ہوا۔ بھٹو کیس میں سیشن کورٹ کی بجائے قتل کا مقدمہ ہائی کورٹ میں دائر ہونا ہی فیصلے کو متنازع بنانے کے لئے کافی تھا۔
سیاست دانوں کے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کی حساسیت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اِن مقدمات کا فیصلہ تو ایک طرف، فیصلہ کرنے کا عمل بھی اتنا شفاف اور غیر جانبدار ہونا چاہئے کہ کوئی شخص اُنگلی نہ اُٹھا سکے۔ اِس کے برعکس آج کل یہ عالم ہے کہ عدالتی فیصلوں کا ذکر سیاسی جلسوں میں تواتر سے کیا جا رہا ہے۔
چالیس سال تک سرکاری نوکری میں انتظامیہ کا حصہ رہا۔ اِس دوران ریاست کے تیسرے اہم ادارے، پارلیمنٹ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جمہوری سیاست آسان نہیں۔ قبائلی نظام سے عوامی سیاست کے سفر میں مشکل مرحلے درپیش ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں، اِس کا آغاز رنگ، نسل، ذات، برادری اور لسانی گروہ بندی سے شروع ہوتا ہے۔ سیاسی گروہوں میں بٹے عوام کسی سیاست دان کو آنکھوں پر بٹھاتے ہیں تو کسی کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اُن کے رویے میں بتدریج تبدیلی آتی ہے۔ ارتقاء کی منازل طے کرتے ہوئے رائے عامہ آہستہ آہستہ اچھی حکمرانی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اگر دُوسرے ادارے ساتھ دیتے رہیں تو معاشرہ بتدریج ترقی کرتا ہے۔ جو دانشور قوموں کے ارتقاء کا علم رکھتے ہیں اُن کے نزدیک معاشی اور سماجی ترقی کا کوئی دُوسرا راستہ کسی قوم کو دستیاب ہی نہیں۔
آخر میں ذکر ڈیرہ غازیخان کے پاکستان چوک کا۔ جسٹس کھوسہ نے سیاست دانوں کی صداقت کے بارے میں اِس چوک پر کھڑے عام آدمی کے تاثر کو اہمیت دی ہے۔ یہ تاثر کسی ایک شخصیت کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے اور قومی اداروں کے بارے میں بھی۔ عوامی ذہنوں میں قطرہ قطرہ سرایت کرنے والا ادراک دکھائی نہیں دیتا۔ منفی تاثر دیمک کی طرح اداروں کی عوامی حمایت کو چاٹ کھاتا ہے۔ قومی اداروں کا احترام اور اُن سے محبت ملک کے تمام شہریوں کا مشترکہ قومی اثاثہ ہے۔ قومی اداروں پر اعتماد ملکی یکجہتی کی علامت ہے۔ جبکہ کوچۂ سیاست میں محبت اور نفرت کے دریا بہتے ہیں۔ غالب نے بہت پہلے کہا تھا ؎’’جس کو ہو جان و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں‘‘۔ جس روز ڈیرہ غازیخان کے پاکستان چوک پر کھڑا شخص سینے پر ہاتھ مار کر پورے اعتماد سے کہے گا کہ پاکستان کے قومی ادارے، سیاست میں مداخلت نہیں کر رہے، اُس دن سے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہونا شروع ہو جائے گا۔