• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیرسنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں اور اس امریکہ کی صدارت کی ذمہ داری پوری کرنے سے قاصر ہیں جو اپنے مفاد میں دُنیا کے امن کا خواہشمند تھا، یا پھر کسی منصوبےکا حصہ ہے، یا اُس کی وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ امریکہ میںتارکین وطن کی تعداد بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے سفید فام قوم کا ایک کالا امریکی تارکین وطن باراک اوباما صدر بن گیا، اُن کے منتخب ہوتے ہی 20سفید فام امریکی ریاستوں نے امریکہ سے علیحدہ ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اب اُن ہی ریاستوں، انتظامیہ، امریکہ امراء، پنٹاگون، دُنیا میں سفید فاموں کی برتری کے خواہاں امراء نے مل کر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کرالیا اور صدر بنتے ہی اس نے سفید فاموں کو منظم کرنے کے متعدد منصوبے روبہ عمل لانے کا اعلان کیا، ان کو مختلف شعبوں میں تربیت، تعلیم کے میدان میں سفید فاموں کو آگے لانے، عام اشیاکے بنانے کی فیکٹریاں تاکہ وہ غیرملکی اشیا سے نجات حاصل کرلیں وغیرہ وغیرہ، انہوں نے اپنی جو کابینہ مرتب کی اُن میں چھ فوجی جنرلوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا، جسے خود امریکی دانشوروں نے جنگی کابینہ کا نام دیا۔ بیرونی دُنیا میں اُس کی بالادستی کو روس اور چین نے چیلنج کررکھا ہے اور اُس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ملک شمالی کوریا امریکہ کے گلے پڑا ہوا ہے، امریکہ کو روز ایٹمی حملے کی دھمکی دیتا ہے، جس کی وجہ سے خیال کیا جاتاہے کہ امریکی بالادستی بحال کرنے کیلئے ایک عالمی جنگ کی ضرورت ہے جو روس اور چین کو شکست دے اور اس کیلئے جتھہ بندی کررہا ہے، جنوبی بحر چین میں چین کو محدود کرنے کیلئے اس نے چار ملکوں امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل ایک اتحاد بنانے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے مسلمانوں کے تمام ملکوں میں مداخلت کو اپنا شیوہ بنا رکھا ہے، نائیجیریا، صومالیہ، سوڈان، عراق، شام، لیبیا، ایران، ترکی، پاکستان، افغانستان اور دوسرے ممالک میں بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت کررہا ہے، افغانستان پر وہ قابض ہے اور اس نے وہاں 9زمین دوز ایٹمی حملوں سے محفوظ اڈے بنا رکھے ہیں تاکہ روس، چین، پاکستان اور ایران میں بوقت ِضرورت مداخلت کرسکے۔
6 دسمبر 2017ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم یا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے ساری مسلم دُنیا کو مضطرب کردیا۔ اگرچہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں 13ستمبر 1993ء کو ایک معاہدہ برسوں کی کاوشوں کے بعد طے پا گیا تھا اور فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرلیا گیا تھا اور اسرائیل اور فلسطین کو علیحدہ علیحدہ ریاستیں مان لیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ بتدریج فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا جائے گا مگر اسرائیل کو یہ دل سے قبول نہیں تھا، جیسا کہ میں نے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ 2005ء کے ایک اور سیمینار میں اسرائیل کے سابق فوجی سربراہ نے کہا تھا کہ فلسطین کے مسئلے کا حل سوائے تمام فلسطینیوں کو مار دینے کے کوئی نہیں ہے، اگرچہ اوسلو معاہدہ موجود تھا۔ خودمختاری کا روڈمیپ بن چکا تھا مگر پھر بھی اسرائیلیوں کے یہی خیالات تھے، اس کے علاوہ امریکہ مسلم دُنیا کی سرحدوں میں ردوبدل کرنے کیلئے یینون منصوبہ، کرنل پیٹر رالف منصوبہ بنا چکا تھا، جس کے مطابق شام، عراق، ترکی، ایران، سعودی عرب، مصر اور دیگر مسلم ممالک کی سرحدوں کو تبدیل کرنا تھا، امریکہ نے چار مسلم ممالک عراق، شام، لیبیا اور سوڈان کو تو تباہ کردیا تاہم شام اور عراق کے ٹکڑے نہ کرسکا اور اس کے عظیم تر اسرائیل بنا نے کے منصوبے کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اُس کی راہ میں روس اور ایران حائل ہوگئے۔ اس نے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو منظم کیا مگر پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ داعش جو امریکہ کا مہلک ترین ہتھیار تھا اس کو شام و عراق میں بدترین شکست ہوئی اور وہاں وہ پسپا ہوئی، جس سے شاید یہ خوف پیدا ہوا ہو کہ اس شکست کے بعد اثرات اسرائیل پر پڑیں گے تو شاید امریکہ نے اپنا وزن اسرائیل کے پلڑے میں بیت المقدس کو دار الحکومت قرار دے کر ڈال دیا۔ اس طرح امریکہ نے اوسلو عمل کو روندھ ڈالا اور اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کو دریابرد کردیا، منقسم اور کمزور مسلم دُنیا میں ہیجان پیدا کردیا، اس کے علاوہ امریکہ کے اندر شمالی کوریا کے ایٹمی حملے کا خوف بڑھ رہا تھا، اس سے اب امریکی عوام کی نظریں ہٹ گئی ہیں، پاکستان، ایران اور مسلم دُنیا کے خلاف ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا مینڈیٹ حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کی مخالفت میں اضافہ کر رہا ہے، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک تو عالمی ایجنڈے کی تکمیل کا خواہاں ہے تو دوسری طرف مسلمانوں سے نفرت بڑھا کر مسلمانوں کی امریکہ آمد اور وہاں موجود غیرملکیوں کو بیدخل کرنے کی خواہش میں بھی شدت پیدا کرنا چاہتا ہے اوراپنی جنگی پالیسی کو کامیاب بنانے کیلئے یروشلم یا بیت المقدس کے معاملے میں مسلمانوں کے ردعمل کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ کوشش ہوگی کہ امریکہ کے اس فیصلے سے مسلمانوں میں اختلافات بڑھیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ 22مسلم ممالک کے سربراہان نے استنبول کے تاریخی شہر میں 13دسمبر 2017ء کو مسلم عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں مشترکہ طور پر مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دے دیا گیا ہے اور امریکہ سے اس کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ یہاںلانے کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس میں ساری دُنیا سے مطالبہ کیا گیا کہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرے۔ امریکہ اپنی ثالثی کے کردار سے پیچھے ہٹا ہے، یہ امن کو تباہ کرنے کی دانستہ کوشش مانی گئی ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکہ کے اس فیصلے کو بڑا جرم قرار دیا۔ اس اجلاس میں 22ملکوں کے سربراہانِ مملکت کے علاوہ 25 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے حصہ لیا اور سب یک زبان تھے، پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، ایران کے صدر حسن روحانی، اردن کے شاہ عبداللہ، امیر قطر، امیر کویت، سوڈان کے صدر، انڈونیشیا کے صدر، صومالیہ، فلسطین، گنی، یمن، جیوتی اور ملائیشیا کے سربراہان شریک ہوئے۔ سب نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ آزاد فلسطین کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ امریکہ کا ثالثی کردار اب ختم ہوگیا ہے، مسلمانوں کو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ اب ثالث کون بنے۔ امریکہ نے یہ فیصلہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا ہے ، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ وہ امریکی عوام کی توجہ بانٹنا چاہتا تھا کہ کہیں اُن پر شمالی کوریا کا خوف غالب نہ آئے۔ شام اور عراق میں داعش کے خاتمے کے بعد اُس کو اسرائیل کو اثرات سے بچانا۔ اور ساری دُنیا کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرکے اپنی بالادستی کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھانا تھا جو وہ کئی طریقوں کام سے کررہا ہے۔ خیال یہ ہے کہ وہ داعش کے ذریعے پورے یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی کرائے گا تاکہ یورپ اور امریکی عوام کو مسلمانوں کے خلاف کارروائی کیلئے تیار کرسکے اور یوں وہ دُنیا کے امن کو تباہ کرنے کی دانستہ کوشش کررہا ہے۔اس کے علاوہ داعش کو افغانستان میں جمع کررہا ہے تاکہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو پایۂ تکمیل پہنچنے میں رکاوٹ ڈالے۔

تازہ ترین