لاہور(خبرایجنسی) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ عدلیہ نہیں، فیصلوں سے اختلاف ہے،احتساب شفاف نہیں، یہ لوگوں کو استعمال کرنے کا طریقہ ہے،ریمارکس دیتے وقت ججز کو بھی اپنے مرتبے کا خیال رکھنا چاہیے، جہانگیر ترین کے معاملے میں نہ کوئی جے آئی ٹی نہ ریفرنس،نہ مانیٹرنگ جج مقرر کیا گیا،عمران جو متقی بنا پھرتا ہے بتائے آمدن کا ذریعہ کیاہے؟ چیئرمین پی ٹی آئی اور شیخ رشید کو کون بتاتا ہےکہ کب کس کی باری اور کب کسے رگڑنا ہے؟دیکھتے ہیں انتخابات میں گالی جیتے گی یا کارکردگی، ریاستی ادارے ملکر کام کریں تو بہتر ہوگا،اسپیکر قومی اسمبلی شریف آدمی، انکے تحفظات میں وزن ، اسکا تدارک ہونا چاہیے،معاملہ ختم نبوت کا نہیں ختم حکومت کا ہے، ہم لوگوں کو چور چور نہیں کہتے، ساڑ ھے4 سال مسلسل سازش اور دبائو کا سامنا کیا، گالیاں سنیں، بے ہودہ الزامات لگائے گئے، احتساب کا گھنائونا کھیل کھیلا گیا،عمران خان نے بار بار کہا کہ ان کی آف شور کمپنی ہے مگر انہیں جانے دیا جس سے پتا چلتا ہے ہمارے اور عمران خان کیلئے فیصلے اور طرح کے ہیں،پی ٹی آئی کو کلین چٹ پرسوالات اٹھتے ہیں، نوازشریف کو تنخواہ لینے کے الزام میں نااہل قراردیاگیا،عمران خان نے تسلیم کیا کہ ان کی آف شور کمپنی ہے‘عمران خان نے یہ نہیں بتایاان کاٹیکس 2لاکھ سے اوپرکیوں نہیں ہوتا؟ انتخابات قریب ہیں اب مخالفین کی گالی گلوچ کی شدت بڑھ جائے گی، ہم جن سے مد مقابل ہیں ان سے زیادہ ڈیلیور کیا، اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا وہ اپوزیشن میں ہے، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی خیبرپختونخوا میں حکومت رہی، 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں بہت طاقتور ہیں، اب تمام صوبوں کے لوگ اپنی اپنی حکومتوں سے حساب مانگیں گے۔ پیر کومیڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی شریف آدمی ہیں، اگر وہ کوئی تحفظات سامنے لائے ہیں تو اس میں بڑا وزن ہے، اگر اسپیکر ایسا سوچے تو اس کا ہر سطح پر نوٹس لیے جانا چاہیے اور ایسی چیزوں کا تدارک ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ، فوج سمیت تمام ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں ساتھ ہوں تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، اگر ہم اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے رہیں تو چھوٹی موٹی چیزیں چلتی رہتی ہیں، اگر ہم ایک دوسرے کے لیے خطرہ نہ بننے کی روایت اپنالیں اور اختلاف رائے تو دشمنی میں تبدیل نہ کریں تو کوئی خطرہ نہیں،انہوں نے کہا کہ عدلیہ سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں لیکن اگر کوئی بینچ ایسا فیصلہ دیتا ہے جو قانون و انصاف کے منافی ہے تو اس پر بات کریں گے ، چیف جسٹس نے ٹھیک کہا کہ عدلیہ کو گالیاں نہیں دینا چاہئیں، عدلیہ کی بے توقیری بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن جج بھی خیال کریں کہ ریمارکس پاس کرتے وقت سوچیں ان کا اپنا مرتبہ اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟۔