وکی لیکس کا بانی جولین اسانج ایک دفعہ پھر عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ جنوبی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک ایکویڈور نے جولین اسانج کو لندن میں اپنے سفارتخانے میں پناہ دے کر امریکی صدر اوبامہ سمیت کئی مغربی حکومتوں کے غیض و غضب کو دعوت دے ڈالی ہے۔ وکی لیکس نے دو سال قبل عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کی قتل و غارت کی ویڈیو فلمیں جاری کرکے توجہ حاصل کی تھی۔ کچھ ہی عرصے میں عراق میں تعینات ایک امریکی فوجی بریڈلے میننگ نے امریکی دفتر خارجہ کے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ تک رسائی حاصل کرکے ہزاروں دستاویزات وکی لیکس کو فراہم کر دیں اور پھر وکی لیکس نے عالمی سفارت کاری میں امریکہ کے جھوٹ، منافقت اور دھوکے بازی کے پول کھولنے شروع کئے۔ وکی لیکس نے پاکستانی عوام کو یہ بتایا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کی مرضی سے ہوتے ہیں لیکن ہماری قیادت اپنے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے میڈیا میں ڈرون حملوں کی نمائشی مخالفت کرتی ہے۔ وکی لیکس کا اہم ترین انکشاف پاکستان میں امریکہ کی سابق سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کی طرف سے واشنگٹن کو بھجوائی جانے والی ایک کیبل تھی جس میں پیٹرسن نے لکھا کہ 7اکتوبر 2009ء کو انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کے ساتھ ملاقات کی جس میں پاشا نے امریکی سفیر کو بتایا کہ وہ اسرائیلی حکام کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں اور انہوں نے اسرائیلیوں کو خبردار کیا ہے کہ بھارت میں ان کے مفادات پر حملہ ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے انکشافات نے یہ سوالات کھڑے کئے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کس کی اجازت کے ساتھ ایک ایسے ملک کے ساتھ رابطے میں تھے جس کے ساتھ پاکستان کے کوئی سفارتی تعلقات نہیں؟ ان سوالات پر بحث کو روکنے کے لئے سوشل میڈیا پر یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ وکی لیکس دراصل یہود و ہنود کی ایک سازش کے تحت جھوٹی خبریں پھیلا رہا ہے لیکن آج وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو اپنی جان بچانے کے لئے ایکویڈور کے سفارت خانے میں پناہ لینی پڑ گئی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جولین اسانج کو سویڈن کے حوالے کیا جائے جہاں اس کے خلاف دو عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں تفتیش ہو رہی ہے۔ جولین اسانج سویڈن جاکر تفتیش میں شامل ہونے کے لئے تیار ہے لیکن اس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سویڈن کی حکومت اسے امریکہ کے حوالے کر دے گی جہاں کئی ارکان کانگریس اس کے خلاف جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ برطانوی سیاستدان جارج گیلوے کھل کر جولین اسانج کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جولین اسانج پر سویڈن میں دو عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام دراصل سیاسی انتقام ہے۔ جولین اسانج نے ایک غلط کام کیا لیکن اس غلط کام میں دونوں عورتوں کی رضا مندی شامل تھی۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ وکی لیکس کا قیام 2006ء میں عمل میںآ یا۔ 2009ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جولین اسانج کو اپنا عالمی میڈیا ایوارڈ دیا، نومبر 2010ء میں وکی لیکس نے عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنا شروع کیا اور صرف چند ہفتوں کے اندر اندر دو خواتین سامنے آگئیں جنہوں نے الزام لگایا کہ جولین اسانج نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ جولین اسانج پر کسی عدالت میں کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ فی الحال صرف تفتیش جاری ہے اور اسے شامل تفتیش کرنے کے لئے ایک وارنٹ جاری کیا گیا ہے لیکن کئی مغربی حکومتوں نے اسے سیاسی پناہ دینے پر ایکویڈور کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف پر نواب اکبر بگٹی کے قتل کا الزام ہے۔ مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کی سماعت کے دوران کئی مرتبہ حاضر ہونے کا حکم جاری ہوا لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے بلکہ لندن میں بڑے آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ امریکہ یا برطانیہ کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ مشرف تو جولین اسانج سے کئی گنا زیادہ اہم ملزم ہے، اسے مغرب میں پناہ دینا پاکستان میں مغرب کے خلاف نفرت ابھارنے کے مترادف ہے۔ مغرب نے صرف ایک مشرف کو نہیں بلکہ نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی اور نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے حربیار مری کو بھی سیاسی پناہ دے رکھی ہے۔ ان دونوں پر بھی پاکستان میں کئی مقدمات ہیں۔ مغربی ممالک جس کو مرضی اپنے ہاں پناہ دیدیں کوئی فکر کی بات نہیں لیکن اگر ایکویڈور جولین اسانج کو سیاسی پناہ دیدے تو یہ بہت بڑا جرم ہے۔
آیئے ذرا آپ کو یاد دلائیں کہ امریکہ نے کس قماش کے لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔ آج کل امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحلی شہر میامی میں ایک صاحب رہائش پذیر ہیں جن کا نام لوئیس پوساڈا کارائلز ہے جو بامبی کے نام سے مشہور ہے۔ بامبی ایک طویل عرصے سے امریکی فوج اور سی آئی اے کے ساتھ مل کر کیوبا میں حکومت تبدیل کرنے کی سازشوں کا حصہ ہے۔ کیوبا میں سازشوں کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے بامبی نے امریکی فوج سے باقاعدہ تربیت حاصل کی اور پھر وینزویلا کی پولیس میں بھرتی ہوگیا۔ 1976ء میں اس نے وینزویلا سے کیوبا جانے والے ایک طیارے میں دو بم نصب کروائے اور پرواز کے دوران بم پھٹنے سے 73مسافر ہلاک ہوگئے۔ ا سے وینزویلا میں گرفتار کرلیا گیا لیکن سی آئی اے نے اسے جیل سے فرار کرا دیا۔
وہ پھر گرفتار ہوا اور دوسری مرتبہ بھی بھاگ گیا۔ اسے جنوبی امریکہ کے ایک ملک ایل سلوے ڈور میں پناہ دلائی گئی جہاں سے بیٹھ کر اس نے 1997میں کیوبا کے ساحلی ہوٹلوں میں بم دھماکے کرائے تاکہ وہاں امریکی سیاح نہ جائیں۔ 2000ء میں کیوبا کے صدر کاسترو پانامہ کے دورے پر آنے والے تھے تو بامبی کو پانامہ میں دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا۔ اس پر کاسترو کو قتل کرنے کی سازش کا مقدمہ چلا لیکن جارج ڈبلیو بش نے اسے پانامہ کی قید سے رہائی دلوا کر امریکہ میں پناہ دیدی۔ امریکی عدالتوں میں اس پر کچھ سال تک نمائشی مقدمے چلے اور 2011ء میں اس کے خلاف تمام الزامات ختم کر دیئے گئے۔ بامبی کے بارے میں وینز ویلا کی سپریم کورٹ کا دو ٹوک حکم ہے کہ اسے وینزویلا کے حوالے کیا جائے، وہ کیوبا کی حکومت کو بھی بم دھماکوں میں مطلوب ہے۔ بامبی 12جولائی 1998ء کو نیویارک ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں اعتراف کر چکا ہے کہ اسے امریکی حکومت نے کیوبا میں بم دھماکوں کے لئے دو لاکھ ڈالر دیئے تھے لیکن امریکی میڈیا کو بامبی کی میامی میں موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں اسے اعتراض ہے تو جولین اسانج پر ہے جو لندن میں ایکویڈور کے سفارتخانے میں پناہ گزین ہے۔ جولین اسانج آسٹریلیا کا شہری ہے اور آسٹریلیا کے عوام کی اکثریت اس کی حمایت کر رہی ہے لیکن آسٹریلیا کی حکومت امریکہ کے سامنے بے بس ہے۔ جولین اسانج کے معاملے نے دنیا پر ایک دفعہ پھریہ واضح کر دیا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات اور سیاست میں انصاف و صداقت کی کوئی اہمیت نہیں۔ مجرم اور دہشت گرد صرف وہ ہے جو امریکی مفادات کے لئے خطرہ بن جائے۔ اگر کوئی امریکی مفادات کی تکمیل کے لئے دہشت گردی کرے اور مسافر طیارہ تباہ کر دے تو کوئی بات نہیں۔ جولین اسانج پر الزامات کی تفتیش ضروری ہونی چاہئے۔ اگر منصور اعجاز لندن میں بیٹھ کر ویڈیو لنک کے ذریعے پاکستانی عدالتوں کی سماعت میں شامل ہوسکتا ہے تو جولین اسانج لندن میں بیٹھ کر سویڈن کے تفتیشی اداروں کے سوالات کا جواب کیوں نہیں دے سکتا؟ اگر یہ آپشن قابل قبول نہیں اور امریکہ ہر صورت میں جولین اسانج کو سویڈن کے حوالے کرنے پر اصرار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قانون کی بالادستی بہت ضروری ہے تو کیوبا کے مسافر طیارے کو بم دھماکوں میں تباہ کرنے کے ملزم بامبی کو وینزویلا کے حوالے نہیں کرنا چاہئے؟ کیا نواب اکبر بگٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل میں مطلوب جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کے حوالے کرکے قانون کا احترام کرنا ضروری نہیں؟ جی نہیں! ایسا نہیں ہوگا کیونکہ بامبی اور مشرف امریکہ کے لئے کام کر رہے تھے اور جولین اسانج امریکی مفادات کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔