اگرچہ چھ جماعتوں پر مشتمل مذہبی اور سیاسی اتحاد ، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو بحال کرنے کی کوششیں کافی دیر سے جاری تھیں لیکن اس کی توقعات اُس وقت بڑھ گئیں جب جماعت ِاسلامی کے امیر، سراج الحق نے گزشتہ ماہ اعلان کیا کہ اس ضمن میں اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے ، اورسابقہ اسلامی اتحاد کی باضابطہ بحالی کا اعلان دسمبر 2017 ء کے وسط میں کردیا جائے گا۔
تاہم ان چھ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے نظریات اور فعالیت سے واقفیت رکھنے والے افراد جانتے ہیں کہ متحدہ مجلس ِعمل کی بحالی کوئی سیدھا سادہ،ہموار معاملہ نہیں ہوگا۔ 2008 ء میں متحدہ مجلس عمل کی تحلیل کے بعد سے یہ جماعتیں مختلف ، بلکہ مخالف اہداف کے حصول کے لئے فعال دکھائی دے رہی ہیں۔ نیز دو سب سے بڑی مذہبی جماعتیںا س وقت مخالف اتحادیوں کا حصہ ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (فضل) پاکستان مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کا حصہ ہے ، جبکہ جماعت اسلامی خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حکومتی اتحاد میں ذیلی شراکت دار کے طور پر مطمئن ہے ۔ چونکہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف ایک دوسرے کی شدید ترین مخالف ہیں اس لئے بعض اوقات اُن کے حامی بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں۔ کچھ حالیہ فیصلے اور نزاعی مسائل شاید متحدہ مجلس عمل کی بحالی میں آڑے آئیں۔ ان میں سے ایک فیصلہ نومبر کے آغاز میں جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کے قائد، مولانا سمیع الحق اور پاکستان تحریک ِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے درمیان ہونے والا سمجھوتہ تھا۔ اس کا ہدف 2018 ء کے عام انتخابات کے لئے سیاسی اتحاد کا قیام تھا ۔ یہ ایک حیران کن پیش رفت تھی ۔ اس کا جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کو بہت حد تک فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ ایک چھوٹی جماعت ہے اور اس کی نہ تو ملک کی اسمبلی میں کوئی نمائندگی ہے اور نہ ہی اس کا قابل ِ ذکر ووٹ بنک ہے ۔ تحریک ِ انصاف کو اس سے واحد فائد ہ یہ ہوسکتاہے کہ وہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے عمل کو روک دے، یا کم از کم جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کو اس سے دور رکھے۔ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ متحدہ مجلس عمل میں ہمیشہ جماعت ِاسلامی اور جمعیت علمائے اسلام فضل کو بالا دستی حاصل رہی ہے ۔ نیزتحریک ِ انصاف دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس کی پالیسیاں اور قیادت ایک دینی جماعت کے لئےقابل قبول ہیں۔ اس طرح وہ اپنی حریف جماعت، جمعیت علمائے اسلام فضل کے الزامات کا تدارک کرسکتی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان، عمران خان پر غیر اسلامی اقدار کو فروغ دینے اور یہودی لابی کے لئے کام کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔
پاکستان تحریک ِ انصاف کوجمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کے ساتھ شراکت داری کے نتیجے میں پہنچنے والا نقصان فائدے کی نسبت کہیں زیادہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں مولانا سمیع الحق کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں۔ 2014ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت کے ساتھ ہونے والے پرامن مذاکرات ، جو ناکامی سے دوچار ہوئے، میں مولانا نے تحریک طالبان پاکستان کی نمائندگی کی تھی ۔ مزید برآں، انتخابی اتحاد کے تحت، تحریک ِ انصاف کو خیبر پختونخوا اسمبلی اور سینیٹ میں کچھ نشستیں مولانا سمیع الحق کی جماعت کو دینی پڑسکتی ہیں، لیکن اس کے عوض اسے دوسری طرف سے کچھ نہیں ملے گا ۔ بلکہ اس سمجھوتے کی وجہ سے تحریک انصاف کی صفوں میں کچھ ناراضگی بھی پید ا ہوسکتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کو دئیے گئے انتخابی حلقوں سے تحریک انصاف کے ٹکٹ کے خواہشمند بغاوت پر اتر تے ہوئے بطور آزاد امیدوار انتخابی معرکے میں شریک ہونے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
چونکہ پاکستان تحریک ِ انصاف مولانا فضل الرحمان کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے ، چنانچہ اس نے بہتر سمجھا ہے کہ مولانا سمیع الحق اُن کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں۔ وزیر ِ اعلیٰ پرویز خٹک نے خیبرپختونخواحکومت کے فنڈز سے تین سوملین روپے دارالعلوم حقانیہ کو دئیے تھے ۔نوشہرہ ضلع کے شہر اکوڑہ خٹک میں واقع دارالعلوم حقانیہ ، جسے مولانا سمیع الحق چلاتے ہیں، ملک کے سب سے بڑے دینی مدارس میں سے ایک ہے ۔ پرویز خٹک اور مولانا سمیع الحق، دونوں کا تعلق ضلع نوشہرہ سے ہے۔ پرویز خٹک نے مولانا کے مدرسے کو فنڈز دیتے ہوئے اُنہیں اپنی پارٹی کے قریب لانے اور انتخابی اتحاد قائم کرانے میں اہم کردار ادا کیاہے ۔ تحریک انصاف نے مدرسے کو عطیہ فراہم کرنے کے متنازع فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اسے مدرسہ اصلاحات لانے اور انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کا ایک حصہ قرار دیا ۔ عمران خان نے مولانا سمیع الحق کے ہمراہ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلانے کے لئے بھی دارالعلوم حقانیہ کا انتخاب کیاتاکہ پولیو کے قطروں کے خلاف کچھ مخصوص علما اور انتہا پسندوں کی تنقید کا توڑ کرسکیں۔ہوسکتا ہے کہ عمران خان جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کرنے کی کچھ اپنی وجوہ رکھتے ہوں لیکن کچھ حلقے اسے کچھ اور معانی دیتے ہیں۔ ایک سینئر سرکاری افسرکو یہ کہتے سنا گیا کہ عمران خان کا مولانا سمیع الحق کے ساتھ اتحاد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ مولانا کے انتہا پسندوں پر اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آنے والے انتخابات کی مہم کے دوران خود کش حملوں سے محفوظ رہ سکیں۔ کہنا پڑے گا کہ موصوف بہت دور کی کوڑی لائے، کیونکہ مولانا سمیع الحق تمام انتہا پسند گروہوں پر اس طرح کا اثر نہیں رکھتے ۔ ایک تو انتہا پسند اب گروہ درگروہ بہت سی شاخوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، اور پھر اُن کے پاس حملہ کرنے کا اپنا محرک ہوتا ہے ۔ متحدہ مجلس عمل کے بحال اور فعال ہونے میں کچھ دیگر رکاوٹیں بھی ہوسکتی ہیں۔ ایک وجہ جماعت ِاسلامی اورجمعیت علمائے اسلام فضل کا فاٹا کے مستقبل پر اپنایا گیا مختلف موقف ہے ۔ زیادہ تردیگر سیاسی جماعتوں ، بشمول جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق کی طرح جماعت ِاسلامی بھی فاٹا کے خیبر پختونخوامیں انضمام کی پرزور حامی ہے ۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام فضل اس کی ببانگ دہل مخالفت کررہی ہے ۔ اس کا کہناہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے قبائلی عوام کو فیصلے کا حق دیا جائے کہ کیا وہ خیبرپختونخوا کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا اپنا ایک الگ صوبہ چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اس حدتک چلے گئے ہیں کہ وہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کو خطے میں امریکی ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ اُن کے موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما، سراج الحق کا کہناہے کہ یہ انضمام قبائلی عوام کو معاشی ، سیاسی اور قانونی حقوق دینے اور فاٹا کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لئے ضروری ہے ۔ ایک اور نزاعی مسئلہ حکومت سے نکلنے کا ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام فضل پاکستان مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت میں شامل ہے تو جماعت اسلامی پاکستان تحریک ِ انصاف کی خیبرپختونخوا کی حکومت کا حصہ ہے ۔ دونوں جماعتیں جہاں تک ممکن ہوسکے اقتدار کے دسترخوان کے مزے لوٹنا چاہتی ہیں۔ وہ حکومتوں کی پانچ سالہ مدت تک اُن کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں تاکہ وہ ترقیاتی فنڈز حاصل کرکے منصوبے مکمل کریں اور اگلے انتخابات میں ووٹروں کی حمایت کی امید رکھ سکیں۔ جماعت ِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام فضل کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ حکومت سے نکلنے کا اعلان متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کیا جائے گا لیکن تاحال اس پر کوئی اتفاق ِ رائے نہیں پایا جاتا۔ یہ بات واضح ہے کہ مذہبی شناخت رکھنے والی سیاسی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لئے بے تاب ہیںتاکہ وہ اپنے ووٹوں کو مستحکم کرسکیں اور عوام کے سامنے ایک اسلامی آپشن رکھ سکیں۔ اُنھوں نے 2002 ء کے عام انتخابات میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی تھی جب متحدہ مجلس عمل نے ایک انتخابی اتحاد کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہوئے حکومت بنائی ۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان کی مخلوط حکومت کا بھی حصہ تھی ۔ متحدہ مجلس عمل قومی اسمبلی میں حکمران جماعت، پاکستان مسلم لیگ ق کے سامنے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی تھی ۔ ق لیگ کو جنرل پرویز مشرف نے اپنے سیاسی ایجنڈے کے حصول کے لئے تشکیل دیا تھا۔
تاہم متحدہ مجلس عمل کی 2002 ء میں انتخابی کامیابی اسلامی ووٹ کے ارتکاز اور امریکہ مخالف لہر کا نتیجہ تھی ۔ نائن الیون کے بعد القاعدہ کو تباہ کرنے اور طالبان کا تختہ الٹنے کے لئے افغانستان پر حملے کی وجہ سے خطہ امریکہ مخالف جذبات سے کھول رہا تھا ۔ آج یہ حالات موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی ووٹ کا رخ دیگر جماعتوں، جیسا کہ تحریک ِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف بھی ہوچکا ہے ۔ مزید یہ کہ متحدہ مجلس عمل کا خیبرپختونخوا اور بلوچستان پر پانچ سالہ اقتدار بہت اچھی کارکردگی نہ دکھاسکا۔ اب اگر اسے بحال کر لیا جاتا ہے تو بھی اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس میں شریک جماعتیں اب 2002ء کی کامیابی کا صرف خوا ب ہی دیکھ سکتی ہیں۔