لاہور (مقصود اعوان ) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی سمیت 52 سنیٹرزآج سے 70 روز بعد اپنی چھ سالہ مدت پور ی کرنے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان میں پیپلزپارٹی کے سب سے زیادہ18،مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے پانچ پانچ مسلم لیگ (ن) کے 8 ،جے یو آئی کے 3 ،ایم کیو ایم کے 4 ،پی ٹی آئی اور مسلم لیگ فنکشنل کے ایک ایک ،پی این پی عوام کے دو اور 5 آزاد سنیٹرز شامل ہیں۔ موجودہ اسمبلیوں کی موجودگی میں 5 مارچ تک سینٹ الیکشن میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ق) اور اے این پی اور مسلم لیگ فنکشنل کو سب سے بڑا سیاسی دھچکا لگے گا جبکہ پنجاب ا ور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں میں ا کثریت کے باعث مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری رہے گا ۔ وفاقی علاقے کی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کی سینٹ کی دونوں نشستیں بھی مسلم لیگ (ن) کو ملنے سے اسےسینٹ میں واضح برتری حاصل ہو جائے گی اس وقت سینٹ میں پیپلزپارٹی کے 27 ،مسلم لیگ (ن )کے 26 ، ایم کیو ایم کے 8 ،تحریک انصاف کے 7 ،عوامی نیشنل پارٹی کے 6 ،جے یو آئی کے 5 ،مسلم لیگ (ق) کے 5 ،نیشنل پارٹی کے 3 ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے دودوبلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، جماعت اسلامی ،مسلم لیگ (ف) کا ایک ا یک سینٹر ہے جبکہ 10 ارکان آزاد ہیں ۔ 12 مارچ کو ریٹائر ہونے والے سنیٹرز میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی ،اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن، احمد حسن، حاجی سیف اللہ بنگش، فرحت اللہ بابر ، روبینہ خالد، مرتضیٰ وہاب، کریم داد، خواجہ میاں رضا ربانی، مہر مشتاق احمد ڈمڑ، شیری رحمان ،تاج حیدر ،سحرکامران ،خالدہ پروین، محمد یوسف بادینی اور عثمان سیف اللہ ،مسلم لیگ (ق) کے سید مشاہد حسین، سعید الحسن مندوخیل ،روزی خاں کاکڑ، روبینہ عرفان، کامل علی آغا ، اے این پی کے دائود اچکزئی، باز محمد خان، شاہی سید، زاہد خان، الیاس بلور، مسلم لیگ (ن) کے ایم حمزہ ،نثار محمد خان، ظفر اللہ ڈھانڈلہ، آصف کرمانی ،اسحاق ڈار، نگہت صادق، کامران مائیکل، ایم کیو ایم کے فروغ نسیم، کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی، نسرین جلیل ، مولانا تنویرالحق تھانوی، جے یو آئی (ف) کے محمد طلحہ محمود، مفتی عبدالستار، مولانا حمید اللہ، پی ٹی آئی کے اعظم خان سواتی، مسلم لیگ فنکشنل کے سید مظفر حسین شاہ،پی این پی کے میر اسرار،محسن خاں لغاری، ہدایت اللہ ، بلال الرحمان، ملک نجم حسین اور صالح شاہ شامل ہیں۔ پنجاب سے تمام خالی نشستیں مسلم لیگ ن کے جیت لینے کا امکان ہے،لیکن اگر پی ٹی آئی، مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی مل کر سینٹ کا الیکشن لڑیں تو ایک نشست مسلم لیگ ن سے چھینی جا سکتی ہے۔ اس طرح خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کے انتخاب لڑنے سے مسلم لیگ ن کو آٹھ دس نشستیں ملنے کا امکان ہے ۔ اسلام آباد سے مسلم لیگ ق کے سید مشاہد حسین اور پیپلز پارٹی کے عثمان سیف اللہ خان کی خالی نشستیں بھی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت کے باعث مسلم لیگ ن کو ہی ملیں گی ۔اس طرح موجودہ اسمبلیوں سے الیکشن کی صورت میں مسلم لیگ ن کے سینٹ اراکین کی تعداد26 سے بڑھ کر 45ہونے کا قوی امکان ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی کم از کم9نشستیں کم ہونے سے پیپلز پارٹی کے سینٹرز کی تعداد16 رہ جائے گی۔ مسلم لیگ ق کے پانچ سینیٹرز کے ریٹائر ہونے سے اس پارٹی کا سینٹ سے وجود ختم ہوجائے گا اور اے این پی کا 5میں سے صرف ایک سینٹرباقی رہے گا۔ پی ٹی آئی کو نشستیں7 سے بڑھ کر 12 ہو سکتی ہیں جس سے مسلم لیگ ن کے بعد پی ٹی آئی سینٹ میں تیسری بڑی پارٹی بن جائیگی۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق، اے این پی اور دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ سینٹ کے انتخابات نئے عوامی مینڈیٹ کے تحت کرائے جائیں۔ سینٹ کے انتخابات کو موجودہ اسمبلیوں کے ذریعے کرانے سے روکنےمیں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ہی آئینی طور پر اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ یا پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کر کے سیاست کا پانسہ پلٹ سکتی ہیں ۔فروری کے پہلے ہفتے میں اسمبلیاں توڑنے سے سینٹ الیکشن کاالیکٹورل کالج مکمل نہیں رہے گا۔ اسطرح آئینی طریقے سےسینٹ کے انتخابات التوا میں جانے سےمسلم لیگ ن کی یقینی کامیابی پر ضرب لگائی جاسکتی ہے ۔اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں کے درمیان رابطے اور مشاورت جاری ہیں۔ جنوری کے آخری ہفتے میں اپوزیشن کے اہم فیصلے متو قع ہیں۔