اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)پاکستان عوامی تحریک (پیٹ )کے سربراہ علامہ طاہر القادری جس آل پارٹی کانفرنس (اے پی سی)کی میزبانی کرنے جارہے ہیں ، اس میں شرکت کرنے والی تمام اہم سیاسی جماعتیں ان کی صرف سیاسی اور اخلاقی حمایت کریں گی اور عملی طور پر ان کے ساتھ کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوں گی۔اس اے پی سی کے ذریعے کوئی تعمیری انتخابی یا سیاسی الائنس بنتا نظر نہیں آرہا، عمران خان کی شرکت بھی مشکوک ہے۔پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے طاہر القادری سے ملاقات میں اس بات کی وضاحت کردی ہے۔بظاہر طاہر القادری کے ساتھ اخلاقی اتحاد کا مقصد ن لیگ اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر دبائو بڑھانا ہے، تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ سیاسی نقصان پہنچایا جاسکے۔عمران خان سے طاہر القادری کی ملاقات سے قبل ، پی ٹی آئی کے ایک وفد نے سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے جاری ہونے والی نجفی رپورٹ کے تناظر میں ملاقات کی تھی اور ان سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔اشارے یہی مل رہے ہیں کہ پی ٹی آئی سربراہ غالباً اس اے پی سی میں شرکت نہ کریں بلکہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنمائوں کو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اس کانفرنس میں بھیجیں۔انہوںنے اس ملاقات کی اہمیت کا اظہار نہیں کیا ہے، حالاں کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ طاہر القادری کی خاطر وہ آصف زرداری کے ساتھ بیٹھنے کو بھی تیار ہیں ، اسی طرح کے جذبات آصف زرداری کے بھی ہیں ۔تاہم ان کی اے پی سی میں شرکت کی تصدیق اب تک نہیں ہوئی ہے۔طاہر القادری خود بھی نہیں جانتے ہیں کہ وہ اے پی سے سے آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ انہوںنے اب تک اس کا اصل مقصد واضح نہیں کیا ہےغالباًوہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استعفوں کا مطالبہ کریں ۔اس حوالےسے ان کے پاس دو راستے ہیں ، ایک تو یہ کہ وہ دھرنے یا احتجاجی مظاہرے کریں گے ۔اس صورتحال میں انہیں علم ہے کہ انہیں اچھی خاصی رقم کی ضرورت ہوگی۔جب کہ دیگر اہم سیاسی جماعتیں جو اے پی سی میں شرکت کریں گی وہ ان دھرنوں میں اپنے کارکنان کو بھیجتی ہوئی نظر نہیں آرہیں۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ پیٹ سربراہ قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کو انصاف دلانے کی کوشش کریں ۔اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ عدالت میں اس سے متعلق ایک مقدمہ پہلے ہی زیر سماعت ہے، جس کی سو سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں۔طاہر القادری کا ایک اہم مطالبہ تھا کہ نجفی رپورٹ جاری کی جائے ، جسے پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرکے پورا کردیا۔اے پی سی کے وفود میں پیٹ کی جانب سے کسی بھی قسم کے احتجاج کے فیصلے میں پی ٹی آئی کی عملی حمایت معنی خیز ہوسکتی ہے اگر عمران خان اس کی حمایت کا فیصلہ کریں گے ۔